سوال:
جو راوی صحابہ سے ارسال کرتا ہے، اس کی روایت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
ارسال کرنے والے تابعی کی اگر صحابی سے ملاقات کا ثبوت ہو، خواہ اسی روایت میں ہو یا کسی دوسری روایت میں ہو، تو اس کی روایت متصل ہوگی۔ اگر ارسال کرنے والے تابعی کی ملاقات صحابی سے ثابت نہ ہو، تو روایت شبہ انقطاع کی بنا پر قبول نہ ہوگی۔ اگر کوئی ماہر امام کسی تابعی کی کسی صحابی سے ملاقات کی نفی کر دے یا عدم سماع پر کوئی قرینہ قائم ہو جائے، تو روایت کو بالجزم منقطع کہیں گے، خواہ کسی روایت میں سماع کی صراحت بھی آجائے۔ اس صورت میں سماع کی صراحت کو کسی راوی کا وہم قرار دیا جائے گا۔
❀ امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان أبو البختري كثير الحديث يرسل حديثه ويروي عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يسمع من كبير أحد فما كان من حديثه سماعا فهو حسن وما كان عن فهو ضعيف
ابو البختری کثیر الحدیث ہے، یہ حدیث میں ارسال کرتا ہے۔ اس نے کئی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ہیں، مگر اس کا زیادہ تر صحابہ سے سماع نہیں ہے۔ لہذا جس حدیث میں اس نے سماع کیا ہو، وہ حسن ہوگی اور جو عن سے روایت کرے، وہ ضعیف ہوگی۔
(طبقات ابن سعد: 293/6)
ارسال کرنے والے تابعی کی اگر صحابی سے ملاقات ثابت ہے، تو قبول روایت کے لیے سماع کی صراحت ضروری نہیں، وہ عن سے روایت کرے، تب بھی قبول ہے۔ جس تابعی کی صحابی سے ملاقات کی نفی کی گئی ہو، وہ اگر سماع کی صراحت بھی کر دے، تب بھی روایت منقطع ہوگی اور سماع کی صراحت کو نیچے والے کسی راوی کا وہم قرار دیں گے۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ کی مراد یہ ہو سکتی ہے کہ ابو البختری، جو کہ مرسل (ارسال کرنے والے) ہیں، کی صحابی سے کسی جگہ بھی سماع کی صراحت مل جائے، خواہ اسی روایت میں ہو یا کسی دوسری روایت میں ہو، تو اس کی روایت حسن ہوگی۔ اگر کہیں بھی سماع کی صراحت نہ ملے، بلکہ عن یا اس جیسے مبہم الفاظ سے ہی روایت ہو، تو اس کی روایت شبہ انقطاع کی بنا پر ضعیف ہوگی، واللہ اعلم!