سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی تائی کا دودھ پیا ہے، آیا وہ شخص اس کی کسی بھی لڑکی سے شرعی اعتبار سے نکاح کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمایا جائے۔ بینوا توجروا عند اللہ۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سوال درست اور صحیح ہے تو مسئلہ کی وضاحت اس طرح ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ … ٢٣﴾
…النساء
”(مسلمانو) تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں۔“
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جیسے نسبی ماں اور بہن حرام ہیں، ویسے ہی رضاعی ماں اور بہن بھی حرام ہیں۔
احادیث مبارکہ سے دلیل
صحیح بخاری میں موجود ہے:
(باب أمهاتكم اللاتى أرضعنكم ويحر من الرضاعة ما يحرم من النسب) (بخاری، ج۲، ص۷۶۴)
”رضاعی ماؤں کی حرمت کا بیان اور آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔“
پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کی ہے:
عَنْ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ – زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَخْبَرَتْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا، وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ إِنْسَانٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُرَاهُ فُلاَنًا- لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ – الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الوِلاَدَةُ»
(صحیح بخاری: ج۲ ص۲۶۴)
”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس موجود تھے کہ اسی دوران آپ ﷺ نے ایک شخص کی آواز سنی جو ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے گھر جانے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ شخص آپ کے گھر میں آنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے لگتا ہے یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: رضاعت اسی چیز کو حرام کرتی ہے جسے ولادت (نسب) حرام کرتی ہے۔“
فقہی وضاحت
اس آیت کریمہ اور صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ:
◈ جس طرح نسبی بہن کے ساتھ نکاح حرام ہے،
◈ اسی طرح دودھ کی بہن کے ساتھ بھی نکاح حرام ہے۔
لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ:
◈ رضاعت دو برس کی عمر کے اندر ہوئی ہو،
◈ اور کم از کم پانچ مرتبہ پستان سے دودھ پیا گیا ہو۔
اگر یہ رضاعت دو برس کے بعد ہو یا صرف ایک یا دو مرتبہ دودھ پیا گیا ہو تو رضاعت کا حکم ثابت نہیں ہوگا، اس صورت میں نکاح حرام نہیں ہوگا۔
فیصلہ
لہٰذا، اس مسئلہ میں چونکہ اس شخص نے اپنی تائی کا دودھ پیا ہے تو وہ اس کا رضاعی بیٹا بن گیا ہے، اور اس کی تائی کی بیٹیاں اس کی رضاعی بہنیں ہو چکی ہیں۔ اس وجہ سے وہ اپنی تائی کی کسی بھی بیٹی سے نکاح کرنے کا شرعاً حق نہیں رکھتا، کیونکہ رضاعی بہنیں اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو چکی ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب