بے نماز کا جنازہ اور اس کی اولاد کا شرعی حکم کیا ہے؟
ماخوذ: قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01

سوال

بے نماز شخص کا جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟ اور اس کی اولاد کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اُنہیں حدیث "هم من آبائهم” کے تحت شامل کیا جا سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے نماز کے جنازے سے متعلق واضح موقف اختیار کیا گیا ہے کہ:

بے نماز شخص کا جنازہ نہ پڑھنے کی دو بنیادی وجوہات:

بے نماز کافر ہے:
چونکہ ترکِ نماز کفر ہے، اس لیے کافر کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔

تنبیہ کی غرض سے:
بے نمازیوں کو تنبیہ دینے کے لیے ان کا جنازہ نہ پڑھا جائے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے خودکشی کرنے والے اور مقروض پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، حالانکہ ترکِ نماز ان گناہوں سے بھی بڑا جرم ہے۔ پس، بطریقِ اولیٰ بے نماز کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جانا چاہیے۔

بے نماز کی اولاد کے بارے میں حکم:

اس بارے میں اصل اصول حدیث "هم من آبائهم” پر مبنی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ "وہ اپنے باپوں سے ہیں”۔ اس حدیث کی بنیاد پر اولاد کا حکم والدین کے تابع ہوتا ہے۔

تاہم اس حدیث میں دو امکانات موجود ہیں:

پہلا احتمال: تقدیر سے متعلق

مطلب یہ ہوگا کہ جیسے کافر جہنمی ہیں، ویسے ہی ان کی اولاد کے بارے میں بھی تقدیر میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔

دوسرا احتمال: ظاہری احکام سے متعلق

مطلب یہ ہوگا کہ وہ اولاد درحقیقت جہنمی نہیں، لیکن دنیاوی (ظاہری) شرعی احکام میں، جیسے کفن، دفن اور نمازِ جنازہ وغیرہ، وہ کافروں کی حیثیت سے شمار کی جائے گی۔

مثلاً:

◈ جنگ میں اگر کافروں کی اولاد اتفاقیہ طور پر مارے جائیں تو کوئی شرعی قباحت نہیں۔
◈ وہ غنیمت کے مال میں شامل ہو کر غلام یا باندیاں بن جاتی ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرعی احکام میں ان کی حیثیت کافر جیسی مانی جاتی ہے، چاہے آخرت میں وہ جنتی ہی کیوں نہ ہوں۔

اگر دوسرا احتمال درست مانیں:

تو پھر بے نماز کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔

اگر پہلا احتمال درست مانیں:

تو اس کی مزید دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

➊ وہ اولاد بھی اپنے والدین کی طرح جہنمی ہو۔
➋ وہ آخرکار جنتی ہو جائے۔

بعض احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ جنتی ہو سکتے ہیں، اس لیے اگر دوسری صورت کو لیا جائے تو جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

اشکال اور اس کا جواب:

اگر کوئی کہے کہ:

"جب بے نماز کافر ہے تو اس کی اولاد کا حکم دیگر کافروں کی اولاد کی طرح ہونا چاہیے، چاہے حدیث هم من آبائهم کا تعلق تقدیر سے ہو یا ظاہری احکام سے۔”

اس کا جواب یہ ہے:
◈ ہندو یا عیسائی وغیرہ کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں، اور اگر کوئی ان کے کفر کا انکار کرے تو وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔
◈ لیکن بے نماز کے کفر پر سلف سے اختلاف موجود ہے۔ اس لیے بے نماز کے کفر کا اثبات ظنی (غیر قطعی) ہے، جبکہ باقی کفار کے کفر کا اثبات قطعی ہے۔

ظنی کفر کی بنا پر کسی دوسرے شخص کو صرف "تابع” ہونے کی وجہ سے کافر کہنا مشکل ہے، جب کہ قطعی کفر میں ایسا کہنا اجماعی طور پر جائز ہے۔

نتیجہ:

اگر حدیث "هم من آبائهم” کا تعلق ظاہری احکام سے ہو، تو بے نماز کی اولاد بھی انہی احکام کے تحت آ سکتی ہے، اور ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔
لیکن اگر حدیث کو اس مفہوم میں نہ لیا جائے، تو صرف "تابع” ہونے کی وجہ سے ان پر کفر کا حکم لگا کر جنازہ ترک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ہاں! اگر بے نمازوں کو تنبیہ مقصود ہو تو ان کی اولاد پر بھی نمازِ جنازہ ترک کی جا سکتی ہے، خواہ حدیث "هم من آبائهم” کا تعلق ظاہری احکام سے ہو یا نہ ہو۔

اہم تنبیہ:

اس تحقیقی بحث سے ایک اور مسئلہ بھی واضح ہوا:

◈ اگر کسی بے نماز (جو کہ کافر ہے) کا نکاح کسی نمازی عورت سے ہو، تو ان کی اولاد حرام کی ہونی چاہیے۔
کیونکہ مسلمان عورت کافر مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ ایسی صورت میں گویا نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں، بلکہ ناجائز تعلق تھا۔

لیکن! چونکہ بے نماز کے کفر کا ثبوت ظنی ہے، اس لیے اس کی اولاد کو ولد الحرام کہنا احتیاطاً ترک کرنا چاہیے۔

البتہ یہ بہت خطرے کی بات ہے، کیونکہ اگر واقعی یہ رشتہ ناجائز ہوا تو اولاد بھی حرام کی ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور تمام بے نمازوں کو نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ان کی نسلیں حلال اور محفوظ رہیں۔ آمین۔

وباللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1