بے نمازی کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟ مکمل شرعی وضاحت
ماخوذ : احکام و مسائل، کھانے پینے کے احکام، جلد 1، صفحہ 445

بے نمازی کے ذبیحہ کے متعلق شرعی حکم

سوال:

اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ بے نماز شخص کافر ہے۔ اگر یہ بات درست ہو تو کیا ایسے شخص کا ذبیحہ (یعنی اس کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور) حلال ہو گا یا حرام؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ﴾
(المائدة: 5)
’’آج حلال ہوئیں تم کو سب پاک چیزیں اور اہل کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے‘‘

اس آیت کی تفسیر میں عام مفسرین نے ’’طعام‘‘ سے مراد ذبیحہ (ذبح کیا ہوا گوشت) لیا ہے۔

❀ جب اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیا گیا ہے،
❀ تو کلمہ گو (یعنی وہ شخص جو اسلام کا کلمہ پڑھتا ہے) اگرچہ وہ نماز نہ بھی پڑھتا ہو، اس کا ذبیحہ بھی حلال ہو گا۔
❀ کیونکہ وہ مسلمان ہے اور اہل کتاب سے بھی افضل درجہ رکھتا ہے۔

البتہ ایک اہم شرط:

اگر ذبیحہ کے وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو،
تو ایسا ذبیحہ حرام ہے،
چاہے ذبح کرنے والا شخص کتنا ہی نمازی اور پرہیزگار کیوں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلَا تَأۡكُلُواْ مِمَّا لَمۡ يُذۡكَرِ ٱسۡمُ ٱللَّهِ عَلَيۡهِ وَإِنَّهُۥ لَفِسۡقٞۗ﴾
(الأنعام: 121)
’’اور اس چیز میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، بے شک یہ گناہ ہے‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَمَآ أُهِلَّ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ بِهِۦ﴾
(المائدة: 3)
’’اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو‘‘

نتیجہ:

❀ اگرچہ بعض اقوال میں بے نمازی کو کافر کہا گیا ہے،
❀ لیکن صرف نماز نہ پڑھنے کی بنیاد پر کسی کے ذبیحہ کو حرام قرار دینا درست نہیں،
❀ جب تک وہ ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام نہ لے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے