بے ریش لڑکے کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھنا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

بے ریش لڑکے کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھنا کیسا ہے؟

جواب:

شہوت کے ساتھ بے ریش خوبصورت لڑکے کی طرف دیکھنا حرام ہے۔
❀ علامہ ابن القطان فاسی رحمہ اللہ (628ھ) فرماتے ہیں:
هذا مما لا خلاف فى تحريم النظر إليه، بل يحرم بالإجماع أن يقصد إلى ذلك
شہوت کے ساتھ بے ریش لڑکے کی طرف دیکھنا حرام ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، بلکہ اس کا قصد کرنا بالا اجماع حرام ہے۔
(أحكام النظر، ص 326)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
النظر إلى وجه الأمرد بشهوة كالنظر إلى وجه ذوات المحارم والمرأة الأجنبية بالشهوة، سواء كانت الشهوة شهوة الوطء أو كانت شهوة التلذذ بالنظر، كما يتلذذ بالنظر إلى وجه المرأة الأجنبية، كان معلوما لكل أحد أن هذا حرام، فكذلك النظر إلى وجه الأمرد باتفاق الأئمة
بے ریش لڑکے کے چہرے کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھنا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی محرم اور اجنبی عورت کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھے، خواہ وہ شہوت اس سے بدفعلی کرنے کی ہو یا محض دیکھ کر لذت حاصل کرنے کی ہو، جیسے اجنبی عورت کے چہرے کی طرف دیکھ کر لذت حاصل کی جاتی ہے۔ سب کے ہاں معلوم ہے کہ یہ حرام فعل ہے، اسی طرح بے ریش لڑکے کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی حرام ہے، اس پر ائمہ کا اتفاق ہے۔
(مجموع الفتاوى: 413/15)
❀ علامہ ابن نحاس رحمہ اللہ (814ھ) فرماتے ہیں:
يحرم النظر إلى الأمرد الحسن بشهوة بالإجماع
خوبصورت بے ریش لڑکے کی طرف دیکھنا بالا اجماع حرام ہے۔
(تنبيه الغافلين، ص 313)
اس بارے میں چند ضعیف روایات بھی مروی ہیں۔
❀ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم وفيهم غلام أمرد ظاهر الوضاءة، فأجلسه النبى صلى الله عليه وسلم وراء ظهره وقال: كانت خطيئة داود عليه السلام النظر
قبیلہ عبد القیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ان میں ایک خوبصورت شکل صورت والا بے ریش لڑکا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے بٹھا لیا اور فرمایا: داؤد علیہ السلام کی خطا یہی تھی کہ انہوں نے بے ریش لڑکے کی طرف دیکھا تھا۔
(دم الهوى لابن الجوزي، ص 106، الزيادات على الموضوعات للسيوطي: 632/2)
➊ روایت باطل ہے۔
➋مجالد بن سعید ضعیف ہے۔
➌عباس بن محرز کون ہے؟ معلوم نہیں۔
➍محمد بن حماد مصیصی کا کوئی اتا پتا نہیں۔
❀ حافظ ابن القطان فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن من دون أبى أسامة لا يعرف
ابو اسامہ سے نیچے سند کے راوی غیر معروف ہیں۔
(أحكام النظر، ص 335)
❀ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف لا أصل له أصلا
روایت ضعیف ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔
(شرح مشكل الوسيط: 535/3)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناده واه
اس کی سند ضعیف ہے۔
(التلخيص الحبير: 315/3)
اس باب میں دیگر باطل اور منکر روایات بھی ہیں۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
إلى غير ذلك من الأحاديث الضعيفة
ان کے علاوہ بھی ضعیف احادیث ہیں۔
(مجموع الفتاوى: 377/15)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے