بیٹے کی غیر موجودگی میں والد بطور وکیل نکاح کر سکتا ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، نکاح کے مسائل، جلد 1، صفحہ 318

سوال

بیٹے کی عدم موجودگی میں نکاح کے وقت کیا باپ بیٹے کا نائب بن کر ایجاب و قبول کر سکتا ہے، جبکہ لڑکی اور اس کا باپ بھی اس بات پر رضامند ہوں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ شریعت کے مطابق عورت کا نکاح ولی کے بغیر صحیح نہیں ہوتا۔
◈ اگر نکاح کے وقت مرد (یعنی لڑکا یا اس کا وکیل) خود موجود نہ ہو، تو اس کی طرف سے کوئی ثقہ و قابلِ اعتماد وکیل اس کا نکاح قبول کر لے، تو نکاح درست ہوگا۔
◈ اس کی دلیل ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے بھی ملتی ہے:

❀ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حبشہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا۔
❀ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ وہاں موجود نہیں تھے۔
❀ آپ ﷺ کی طرف سے ایک وکیل نے نکاح کا ایجاب و قبول کیا۔
❀ اس واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غیر موجود مرد کا نکاح اس کے وکیل کے ذریعے درست طور پر انجام دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ تمام فریقین رضامند ہوں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1