بیٹی یا بہن کے مہر کے عوض نکاح کا حکم
فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال :

کیا آدمی اپنی بیٹی یا بہن کے مہر کے عوض نکاح کر سکتا ہے ؟

جواب :

کسی شخص کی بیٹی یا بہن کا مہر اس عورت کا اپنا حق ہے، ہاں اگر کوئی عورت اپنا سارا مہر یا اس کا کچھ حصہ اپنی رضامندی اور اختیار سے اسے ہبہ کر دے اور اس کا یہ عمل شرعاً معتبر بھی ہو تو وہ ایسا کر سکتی ہے، اور اگر وہ اپنا مہر اسے نہ دے تو اس کا اس سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے صرف باپ اپنی بیٹی کے حق مہر سے اتنا سا لے سکتا ہے جو بیٹی کے لئے ضرر رساں نہ ہو اور نہ وہ کسی سے امتیازی سلوک کرے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إن أطيب ما أكلتم من كسبكم، وإن أولادكم من كسبكم [رواه الترمذي فى الاحكام باب 22 والنسائي فى كتاب البيوع باب 1 و أحمد 162/6 و ابن ماجه فى كتاب التجارات باب 64 ]
”سب سے پاکیزہ مال جو تم کھاتے ہو وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد تمہاری کمائی سے ہے۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے