سوال
علماء دین کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا ہے کہ:
عبدالرحمن اور سموں کے درمیان رشتہ داری کا معاملہ طے ہوا۔ سموں نے اپنا عوض عبدالرحمن کو دیا اور عبدالرحمن سے عوض لے کر اپنے بھائی عبدالغنی کی شادی کرائی۔ شرط یہ رکھی گئی کہ عبدالغنی اپنی ایک بیٹی عبدالرحمن کو دے گا اور دوسری بیٹی سموں کو دے گا، یعنی عبدالغنی کی بیٹیوں کا یہ بٹوارہ ہوا۔
بعد ازاں عبدالغنی کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جو عبدالرحمن کو دے دی گئی، لیکن وہ فوت ہوگئی۔ پھر عبدالغنی کو ایک اور بیٹی پیدا ہوئی جسے سموں مانگ رہا ہے۔ لیکن عبدالرحمن اب عبدالغنی پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اسے دوسرا رشتہ دیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت محمدی کے مطابق اس بیٹی کا حقدار کون ہوگا؟ سموں یا عبدالرحمن؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہنا چاہیے کہ اس لڑکی کا حقدار سموں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سموں نے اپنی بیٹی دے کر اپنے بھائی عبدالغنی کی شادی کروائی تھی، لہٰذا اب اسی کا حق بنتا ہے۔ عبدالرحمن کو اس کا حق پہلے ہی مل چکا تھا، اور جب وہ بیٹی فوت ہوگئی تو اس کے بعد اس کا کوئی مزید حق باقی نہیں رہتا۔
سموں نے عبدالغنی کے ساتھ یہ شرط رکھی تھی کہ:
آپ کی شادی میں کرا رہا ہوں اور جو لڑکی پیدا ہوگی وہ میری ہوگی۔
لہٰذا اب شریعت کے مطابق یہ حق سموں کا ہے، عبدالرحمن کا اس میں کوئی حق باقی نہیں رہا۔