سوال
اگر آپ کی بیٹی کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے لیکن آپ کو وہ لڑکا پسند نہیں، اور آپ کے مطابق وہ رشتہ بیٹی کے لیے مناسب نہیں۔ آپ نے بیٹی کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ بضد ہے کہ شادی اسی سے کرے گی یا بالکل نہیں کرے گی۔ اس صورتحال میں وقتی اور طویل مدتی پلاننگ کیا ہوگی؟
جواب از فضیلۃ الشیخ خضر حیات حفظہ اللہ
شرعی نقطۂ نظر
ولی اور لڑکی کی رضامندی ضروری ہے:
- شریعت کے مطابق نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی اور ولی (والد یا سرپرست) کی اجازت دونوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
- رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق، ولی کو لڑکی کی مرضی کے خلاف زبردستی نکاح کرنے کی اجازت نہیں:
"اگر باپ یا دادا زبردستی نکاح کروائیں تو نکاح مردود ہوگا۔” [صحیح بخاری] - لڑکی کو بھی اپنی مرضی میں جلد بازی یا جذباتی فیصلے سے بچنا چاہیے اور ولی کے مشورے کو اہمیت دینی چاہیے۔
ولی کی ذمہ داری:
- ولی کا فرض ہے کہ وہ لڑکی کے لیے مناسب ترین رشتہ تلاش کرے اور اس کی رضامندی کو مدنظر رکھے۔
- اگر ولی اپنی طاقت کا غلط استعمال کرے یا ذاتی انا کی وجہ سے اچھے رشتے کو رد کرے، تو وہ شریعت میں گناہ گار ہوگا۔
لڑکی کا ذمہ دارانہ رویہ:
- لڑکی کو چاہیے کہ وہ والدین کی عزت اور ان کی بصیرت کو مدنظر رکھے اور جذباتی طور پر کوئی غلط فیصلہ نہ کرے۔
عملی رہنمائی
والدین کی حکمت عملی:
- والدین اپنی بالغ سوچ اور تجربے کی بنیاد پر بیٹی کو جذباتی فیصلوں کے ممکنہ نقصانات سمجھائیں۔
- والدین کو بیٹی کے جذبات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے محبت اور ہمدردی سے قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
متبادل پیش کریں:
- والدین بیٹی کو مزید مناسب رشتے دکھائیں تاکہ وہ اپنی پسند کو متوازن طور پر دیکھ سکے۔
- اگر بیٹی کسی خاص لڑکے پر اصرار کر رہی ہے، تو والدین کو چاہیے کہ اس کے کردار، خاندانی پس منظر اور دیگر پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیں۔ اگر واقعی وہ غیر مناسب ہو تو بیٹی کو بہتر متبادل پیش کریں۔
مشترکہ فیصلہ سازی:
- والدین اور بیٹی دونوں کو ضد اور ہٹ دھرمی سے بچنا چاہیے۔
- والدین کو بیٹی کی پسند کو مکمل طور پر رد نہیں کرنا چاہیے، اور بیٹی کو والدین کے خدشات کو اہمیت دینی چاہیے۔
مشاورت:
- اگر صورتحال پیچیدہ ہو جائے تو خاندان کے بزرگ یا معزز افراد کی مدد لیں۔
- ماہرین نفسیات یا دینی علماء سے مشورہ بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ جذباتی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
جذباتی دباؤ اور وقتی ردعمل
- بیٹی کا جذباتی اصرار عموماً وقتی ابال ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ ختم ہو سکتا ہے۔
- والدین کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور بیٹی کو محبت اور شفقت سے صحیح فیصلے کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے۔
- والدین کو سختی اور جبر سے گریز کرنا چاہیے تاکہ بیٹی مزید ضد نہ کرے۔
خلاصہ:
شریعت نے نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی اور ولی کی اجازت کو لازم قرار دیا ہے۔
والدین کو بیٹی کے جذبات کو سمجھتے ہوئے اس کی مناسب رہنمائی کرنی چاہیے اور بیٹی کو جذباتی فیصلے سے بچنا چاہیے۔
بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ والدین اور بیٹی دونوں افہام و تفہیم کے ذریعے کسی مشترکہ نتیجے پر پہنچیں۔