زبردستی شادی کا شرعی حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال:

اس آدمی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی نوجوان کنواری لڑکی کی شادی کسی آدمی سے زبردستی کر دی، جبکہ لڑکی اسے ناپسند کرتی ہے، مزید یہ کہ وہ اپنے خاوند کی بات نہیں مانتی اور نہ کسی معاملے میں اس کی اطاعت کرتی ہے۔ جب اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ خودکشی کی دھمکی دیتی ہے؟

جواب:

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، یہ حالت جس کی طرف آپ نے سوال میں اشارہ کیا ہے، انتہائی بری اور گھریلو ناکامی کی انتہا ہے۔ ایسی حالت میں اصلاح کی کوئی بھی کوشش سودمند نظر نہیں آتی، اس لیے زبردستی کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان جدائی کی کوشش کرنی چاہیے، یا تو لڑکی خلع لے لے، یا طلاق کے ذریعے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے۔ خاوند کے لیے مستحب اور بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی بیوی کا خلع قبول کر لے، بلکہ بعض علماء نے مذکورہ حالت میں خلع کو واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ” الفروع والانصاف “نامی کتاب میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ شام کے بعض قاضیوں (جمہور) کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے، جب ان کی بیوی خلع کا مطالبہ کر رہی تھی، فرمایا تھا:
قبل الحديقة وطلقها تطليقة
بخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ الخ (5273)
”باغ (جو بطور حق مہر دیا تھا) واپس لے لو اور اس عورت کو طلاق دے دو۔“
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت شادی کو ناپسند کرے، جس پر اسے مجبور کیا گیا ہو تو خاوند پر واجب ہے کہ خلع قبول کر لے، کیونکہ اس حدیث میں مذکورہ عورت کو اس کے باپ نے زبردستی شادی پر مجبور کیا تھا۔ یہ بات اہل علم میں معروف ہے کہ نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ اگر لڑکی کنواری بھی ہو تو اس کا باپ اسے شادی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن، قالوا يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال أن تسكت
”بیوہ عورت کی شادی اس کے مشورے کے بغیر نہیں کی جا سکتی اور کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اس کی اجازت کیسے ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ وہ خاموش رہے (تو یہ اس کی اجازت ہے)۔“
متفق علیہ، بخاری، کتاب النکاح، باب لا ینكح الأب وغیره البكر والثیب الا برضا هما (5136)، مسلم (1419)
امام زرکشی فرماتے ہیں: ”یہی بات ظاہر ہے۔“ اور ابن رزین نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے۔ امام اوزاعی، شافعی، ابو ثور، ابن اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے اور یہی صحیح ہے۔ ہم نے اس مسئلے میں اپنے علم کے مطابق یہی رائے اختیار کی ہے کہ باپ اپنی نوجوان کنواری لڑکی کو شادی پر مجبور نہیں کر سکتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے