بیٹیوں کی پیدائش پر ناراضگی اور غصے کا اظہار کرنا اہل جاہلیت کا فعل تھا
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بیٹیوں کی پیدائش پر ناراضگی اور غصے کا اظہار کرنا اہل جاہلیت کا فعل تھا
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ – يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ‎ [النحل: 58 – 59]
”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے اس بُری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے ۔ سوچتا ہے کہ کیا اس ذلت کو لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے ، آہ ! یہ لوگ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟ ۔“
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [الزخرف: 17]
”ان میں سے کسی کو جب اس چیز کی خبر دی جائے جس کی مثال اس نے (اللہ ) رحمٰن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غمگین ہو جاتا ہے ۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ بیٹیوں کی پیدائش پر غمگین و پریشان ہونا اہل جاہلیت کا فعل تھا ۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے بیٹیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا اور ان کی اچھی پرورش کے نتیجہ میں جنت میں داخلے کا اعلان فرمایا ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1