بیوی، ماں، باپ، دو بیٹے اور ایک بیٹی کے درمیان ترکہ کی شرعی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 597

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ جمال بیگ نامی شخص کا انتقال ہوگیا۔ اس نے ورثاء میں چھوڑے: ایک بیوی، ماں، باپ، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ شریعتِ محمدی کے مطابق ہر ایک کا کتنا حصہ مقرر ہوگا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میت کی ملکیت (ترکہ) میں سے تقسیم سے پہلے تین چیزیں نکالی جائیں گی:

سب سے پہلے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
اس کے بعد اگر میت پر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔
اس کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی گئی ہے تو اس کو جائیداد کے تیسرے حصے (ایک تہائی) سے پورا کیا جائے گا۔

ان سب امور کے بعد باقی ماندہ ترکہ کو تقسیم کیا جائے گا۔ یہاں تقسیم کو آسانی کے لیے ایک روپیہ فرض کیا گیا ہے۔

تقسیم کا طریقہ

مرحوم: جمال بیگ
کل ملکیت: 1 روپیہ

ورثاء اور حصے

وارث پائیاں آنے
بیوی 00 02
ماں 08 02
باپ 08 02
بیٹے (ہر ایک) 2/1/5 03
بیٹی 09 01

جدید اعشاریہ نظام کے مطابق تقسیم

کل ملکیت = 100

◈ بیوی: 12.5%
◈ ماں: 16.66%
◈ باپ: 16.66%
◈ دو بیٹے (بطورِ عصبہ): 43.34% → فی کس 21.672%
◈ ایک بیٹی (بطورِ عصبہ): 10.836%

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے