بیوی، تین بیٹے اور آٹھ بیٹیوں میں وراثت کی شرعی تقسیم
ماخوذ: فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 637

سوال

علماے دین کی خدمت میں سوال ہے کہ:
اگر عیسیٰ نامی شخص کا انتقال ہوگیا اور اس کے وارثوں میں ایک بیوی، تین بیٹے (غلام رسول، غلام حسین اور حاجی چھچھو) اور آٹھ بیٹیاں شامل ہیں، تو شریعتِ محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی میت کی جائیداد میں درج ذیل ترتیب کے مطابق تصرف کیا جاتا ہے:

کفن و دفن کے اخراجات میت کی ملکیت میں سے نکالے جائیں گے۔
➋ اگر مرحوم پر کوئی قرض ہے تو وہ اسی ملکیت میں سے ادا کیا جائے گا۔
➌ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو کل ترکہ کے ایک تہائی (⅓) حصے تک پورا کیا جائے گا۔
➍ ان مراحل کے بعد جو جائیداد باقی بچے گی، اسے منقولہ یا غیر منقولہ ہو، ایک روپیہ فرض کرکے تقسیم کیا جائے گا۔

تقسیمِ وراثت (اصولی جدول)

فوت ہونے والے (عیسیٰ) کی ملکیت: 1 روپیہ

وارث پائیاں آنے
بیوی 00 02
غلام رسول (بیٹا) 00 02
غلام حسین (بیٹا) 00 02
حاجی چھچھو (بیٹا) 00 02
8 بیٹیاں 00 08

قرآنی دلائل

◈ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾ (النساء)
(یعنی اگر تمہارے اولاد ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا)

◈ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ (النساء)
(یعنی مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا)

جدید اعشاریہ فیصدی نظام کے مطابق تقسیم

✿ کل جائیداد = 100 فیصد

بیوی: 1/8 = 12.5%
3 بیٹے (عصبہ): مجموعی 37.5% → فی کس 12.5%
8 بیٹیاں (عصبہ): مجموعی 50% → فی کس 6.25%

نتیجہ

یہی تقسیم شریعتِ محمدی کے مطابق ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے