بیمار بکریوں کی خرید و فروخت کا شرعی حکم
بیمار بکریوں کی خرید و فروخت
خرید و فروخت وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے حلال کیا ہے اور یہ ان کے مفادات اور مصلحتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ضروری ہے کہ یہ خرید و فروخت سچائی، امانتداری اور خیر خواہی پر مبنی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«البيعان بالخيار مالم يتفرقا، فإن صدقا، و بينا بورك لهما فى بيعهما، وإن كتما و كذبا محقت بركة بيعهما» [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 1532/47]
’’دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے علاحدہ نہ ہو جائیں تب تک انہیں اختیار ہے، اگر وہ سچ بولیں اور بے لاگ انداز میں ہر چیز واضح کر دیں تو ان دونوں کی خرید وفروخت بابرکت ہو جائے گی، اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولااور چھپایا تو ان دونوں کی بیع سے برکت مٹ جائے گی۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے سے منع فرمایا ہے:
«من غش فليس مناه» [صحيح مسلم 102/164]
”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔“
اور فرمایا:
اور بولی نہ بڑھاؤ، کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی (پیغام نکاح) پر منگنی ہی کرے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2140 صحيح مسلم 1413/51]
اس مفہوم کی بہت زیادہ احادیث ہیں۔ جب آپ اپنا کوئی سامان بیچیں اور اس میں کوئی عیب ہو تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ خریدار کے سامنے اسے
واضح کریں، اسے چھپائیں نہ غلط بیانی سے کام لیں۔ یہ بیمار بکریاں جو آپ بیچ رہے ہیں، ضروری ہے کہ ان کی بیماری واضح کریں، انہیں اس طرح بیچیں کہ یہ عیب والی ہیں اور خریدار کو اس پر مطلع کریں، تاکہ تمھاری بہ بیع سچائی پر قائم ہو۔ واللہ اعلم
[الفوزان: المنتقى: 55]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1