بیع میں اختیار کی شرعی حیثیت صحیح حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

بیع میں اختیار کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب:

دو شخص باہم خرید و فروخت کر رہے ہوں، دونوں کو بیع قائم رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار رہتا ہے، جب تک مجلس برخاست نہیں ہو جاتی۔ جوں ہی مجلس جدا ہوگی، تو بیع ختم کرنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ فقہی اصطلاح میں اسے تفرق کہا جاتا ہے۔ بیع میں اختیار کا تعلق مجلس کے ختم ہونے سے ہے، جسے التفرق بالأبدان کہتے ہیں، جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے۔
اس کے برعکس ایک رائے یہ ہے کہ بیع طے ہو جائے، تو بیع میں اختیار ختم ہو جاتا ہے، خواہ مجلس برخاست ہو یا نہ ہو، اسے التفرق بالکلام کہتے ہیں، یہ مذہب احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور جمہور اہل علم کے خلاف ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن المتبايعين بالخيار فى بيعهما ما لم يتفرقا، أو يكون البيع خيارا، قال نافع: وكان ابن عمر إذا اشترى شيئا يعجبه فارق صاحبه
خریدنے اور بیچنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جائیں، انہیں اختیار باقی رہتا ہے، الا یہ کہ بیع خیار ہو (یعنی بیع توڑنے کا اختیار دیا گیا ہو)۔ نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی شے خریدتے تو ان کی چاہت ہوتی تھی کہ فروخت کنندہ سے جدا ہو جائیں۔
(صحيح البخاري: 2107، صحيح مسلم: 1531)
❀ صحيح مسلم کے الفاظ ہیں:
كان إذا بايع رجلا، فأراد أن لا يقيله، قام فمشى هنيهة، ثم رجع إليه
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی سے شے خریدتے اور اسے واپس کرنے کا ارادہ نہ کرتے، تو اٹھتے اور تھوڑا سا چلتے، پھر اس کی طرف واپس لوٹ آتے۔
❀ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (181ھ) فرماتے ہیں:
الحديث فى البيعين بالخيار ما لم يتفرقا أثبت من هذه الأساطين
جس حدیث میں جدائی تک بیع کے اختیار کا ذکر ہے، وہ ان ستونوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 272/5)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على أن هذا الحديث ثابت عن النبى صلى الله عليه وسلم وأنه من أثبت ما نقل الآحاد العدول
اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، نیز یہ عادل راویوں کی بیان کردہ اخبار آحاد میں سے مضبوط ترین روایت ہے۔
(التمهيد: 8/14)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ (279ھ) فرماتے ہیں:
العمل على هذا عند بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول الشافعي، وأحمد، وإسحاق، وقالوا: الفرقة بالأبدان لا بالكلام، وقد قال بعض أهل العلم: معنى قول النبى صلى الله عليه وسلم ما لم يتفرقا، يعني الفرقة بالكلام، والقول الأول أصح لأن ابن عمر هو روى عن النبى صلى الله عليه وسلم وهو أعلم بمعنى ما روى
اس حدیث پر صحابہ اور بعد والے بعض اہل علم کا عمل ہے، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے، وہ کہتے ہیں کہ (یہاں) جسمانی لحاظ سے جدا ہونا مراد ہے، نہ کہ گفتگو کے موضوع کا تبدیل ہونا۔ البتہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ فرمان نبوی: جب تک دونوں جدا نہ ہوں سے مراد گفتگو کا تبدیل ہونا ہے، پہلا قول ہی صحیح ہے، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں اور وہ اپنی روایت کے معنی کو بہتر جانتے ہیں۔
(سنن الترمذي، تحت الرقم: 1245)
❀ ابوالوفا رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
غزونا غزاة لنا فنزلنا منزلا فباع صاحب لنا فرسا من رجل بعبد فلبثا بقية يومهما وليلتهما حتى أصبحا قال: فلما حضر الرحل قام الرجل إلى فرسه ليسرجه وندم قال: فأخذه الرجل بالبيعة فأتيا أبا برزة رضى الله عنه فقصا عليه قصتهما فقال: أترضيان أن أقضي بينكما بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: البيعان بالخيار ما لم يتفرقا
ہم ایک غزوہ میں شریک تھے، تو ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، (اس دوران) ہمارے ایک ساتھی نے غلام کے عوض گھوڑا فروخت کر دیا، پھر صبح تک دن اور رات کا باقی حصہ انہوں نے وہیں گزارا، جب کوچ کرنے کا وقت آیا، تو وہ آدمی اپنے گھوڑے پر زین کسنے کے لیے اٹھا، تو نادم ہوا (کہ گھوڑا کیوں فروخت کیا)۔ دوسرے آدمی نے چونکہ گھوڑا خرید لیا تھا، لہذا اس نے گھوڑا پکڑ لیا، چنانچہ وہ دونوں ابو برزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں یہ قصہ سنایا، انہوں نے فرمایا: اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں تو منظور ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جائیں، انہیں (بیع توڑنے کا) اختیار باقی رہتا ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 425/4، سنن أبي داود: 3457، سنن ابن ماجه: 2181، وسنده صحيح)
❀ اس حدیث کو امام ابن الجارود رحمہ اللہ (619ھ) نے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البائع والمبتاع بالخيار ما لم يتفرقا إلا أن تكون صفقة خيار ولا يحل له أن يفارقه خشية أن يستقيله
خریدنے اور بیچنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جائیں، انہیں اختیار باقی رہتا ہے، الا یہ کہ بیع خیار ہو (یعنی بیع توڑنے کا اختیار دیا گیا ہو) اور سودا واپس کرنے کے اندیشے کے پیش نظر جلدی سے الگ ہو جانا جائز نہیں۔
(مسند الإمام أحمد: 183/2، سنن أبي داود: 3456، سنن النسائي: 4488، سنن الترمذي: 1247، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن اور امام ابن الجارود رحمہ اللہ (619ھ) نے صحیح کہا ہے، سنن دار قطنی (50/3) میں ابن عجلان کی متابعت بکیر بن عبد اللہ اشج نے طالب مسلسل کے ساتھ کر رکھی ہے۔
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ (279ھ) فرماتے ہیں:
معنى هذا: أن يفارقه بعد البيع خشية أن يستقيله، ولو كانت الفرقة بالكلام ولم يكن له خيار بعد البيع لم يكن لهذا الحديث معنى، حيث قال صلى الله عليه وسلم: ولا يحل له أن يفارقه خشية أن يستقيله
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ خریدار بیع طے ہونے کے بعد اس خدشہ سے جدا نہ ہو کہ فروخت کنندہ شے واپس لے لے گا۔ اگر جدائی سے مراد کلام کا موضوع بدلنا ہوتا اور بیع کے بعد اسے اختیار نہ ہوتا، تو اس حدیث کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدار کے لیے جائز نہیں کہ وہ فروخت کنندہ سے اس اندیشہ سے جدا ہو جائے کہ وہ اس سے وہ شے واپس لے لے گا۔
(سنن الترمذي، تحت الرقم: 1247)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ دونوں اس حدیث کے راوی ہیں، دونوں کے علم و فہم سے پتا چلتا ہے کہ جدائی میں کلام کا اعتبار نہیں، بلکہ جسمانی طور پر جدا جدا ہونا مراد ہے، جب مجلس برخاست ہو جائے، تو اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
❀ امام لغت ابو منصور ازہری رحمہ اللہ (370ھ) فرماتے ہیں:
سئل أحمد بن يحيى عن الفرق بين الإفتراق والتفرق فقال: أخبرني ابن الأعرابي عن المفضل قال: فرقت بين الكلامين مخففا فافترقا وفرقت بين اثنين مشددا فتفرقا فأراه جعل الإفتراق فى القول والتفرق بالأبدان
احمد بن یحییٰ ثعلب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ افتراق اور تفرق میں کیا فرق ہے، تو کہتے ہیں کہ مجھے ابن الاعرابی نے مفضل رحمہ اللہ سے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: فَرَقْتُ بَيْنَ الْكَلَامَيْنِ مُخَفَّفًا فَافْتَرَقَا وَفَرَّقْتُ بَيْنَ اثْنَيْنِ مُشَدَّدًا فَتَفَرَّقَا میں نے دو کلام میں فرق کیا، تو وہ الگ الگ ہو گئے، میں نے دو چیزوں میں فرق کیا، تو وہ جدا جدا ہو گئیں۔ تو میں نے جان لیا کہ افتراق کا تعلق کلام کے ساتھ ہے اور تفرق کا تعلق جسمانی شے کے ساتھ ہے۔
(الزاهر، ص 131)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
قوله: وكانا جميعا يبطل كل تأويل يتأوله من خالف ظاهر الحديث من أهل العراق وغيرهم، وكذلك قوله: وإن تفرقا بعد أن يتبايعا ولم يترك واحد منهما البيع فقد وجب البيع وفيه أبين دلالة على أن التفرق بالأبدان هو القاطع للخيار، وأن للمتبايعين أن يتركا البيع بعد عقده ما داما فى مجلسهما ولو كان معناه: التفرق بالأداء لخلا الحديث عن الفائدة
فرمان نبوی: خریدنے اور بیچنے والا اکھٹے ہوں ہر اس تاویل کو باطل کرتا ہے، جو اس حدیث کے ظاہر کی مخالفت کرنے والے اہل عراق وغیرہ نے کر رکھی ہے۔ اسی طرح فرمان نبوی: اگر بیع کرنے کے بعد دونوں جدا ہو جائیں اور دونوں میں سے کسی نے بیع کو ترک نہ کیا ہو، تو بیع واجب ہو جاتی ہے میں بھی واضح دلیل ہے کہ تفرق بالا بدان سے ہی اختیار ختم ہوتا ہے، نیز یہ حدیث دلیل ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ کو بیع کرنے کے بعد اسے توڑنے کا اختیار حاصل ہے، جب تک وہ اسی مجلس میں موجود ہیں۔ اگر اس حدیث کا معنی تفرق بالا اداء (گفتگو کا بدل جانا) ہوتا تو حدیث میں کوئی فائدہ باقی نہ رہتا۔
(أعلام الحديث: 1031/2)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
إن ابن عمر حمله على التفرق بالأبدان وكذلك أبو برزة الأسلمي ولا يعرف لهما مخالف من الصحابة
بلا شبہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو تفرق بالا بدان پر محمول کیا ہے، اسی طرح ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بھی۔ صحابہ میں ان دونوں کا مخالف کوئی نہیں۔
(فتح الباري: 330/4)
❀ علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ (1304ھ) فرماتے ہیں:
لعل المنصف غير المتعصب يستيقن بعد إحاطة الكلام من الجوانب فى هذا البحث والمتأمل فيما ذكرنا وما سنذكره أن أولى الأقوال هو ما فهمه الصحابيان الجليلان، وفهم الصحابي وإن لم يكن حجة لكنه أولى من فهم غيره بلا شبهة
اس مسئلہ کا تفصیل کے ساتھ احاطہ کرنے والا غیر متعصب اور منصف مزاج شخص یقین کر لے گا اور ہماری پیش کردہ معروضات میں غور و فکر کرنے والا جان لے گا کہ اس مسئلہ میں سب سے اولیٰ اور صحیح بات وہ ہے، جو ان دونوں صحابی (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ) نے سمجھی ہے۔ فہم صحابی اگر حجت نہیں، مگر بلاشبہ غیر صحابی کے فہم سے بہتر ہے۔
(التعليق الممجد، ص 340)
❀ علامہ محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
الحاصل أن مسألة الخيار من مهمات المسائل، فخالف أبو حنيفة فيها الجمهور، وكثيرا من الناس من المتقدمين والمتأخرين، وصنفوا فى ترجيح مذهب الشافعي، من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مد ظله: يترجح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف إن الترجيح للشافعي فى هذا المسألة ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبى حنيفة
حاصل بحث یہ کہ مسئلہ خیار اہم مسائل میں سے ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں جمہور اور کئی متقدمین اور متاخرین کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے رد میں تصانیف لکھی ہیں۔ مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے رسائل مذہب شافعی میں احادیث اور نصوص کے اعتبار سے اسی کو ترجیح دی ہے، اسی طرح ہمارے شیخ مد ظلہ نے کہا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہی راجح ہے۔ نیز فرماتے ہیں حق اور انصاف یہی ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کو ترجیح حاصل ہے، مگر ہم مقلد ہیں، ہم پر اپنے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ہی واجب ہے۔
(التقرير للترمذي، ص 35-36)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البيعان بالخيار ما لم يتفرقا من بيعهما
خریدنے اور بیچنے والے کو اختیار رہتا ہے، جب تک وہ دونوں بیع (کے متعلق بات کرنے) سے فارغ نہ ہو جائیں۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 125/7، مسند الإمام أحمد: 311/2)
سند ضعیف ہے، ایوب بن عتبہ ضعیف ہے۔
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (277ھ) فرماتے ہیں:
فيه لين قدم بغداد ولم يكن معه كتبه فكان يحدث من حفظه على التوهم فيغلط
یہ کمزور راوی ہے، جب بغداد آیا، تو اس کے پاس کتابیں نہیں تھیں، یہ وہم کھاتے ہوئے اپنے حفظ سے بیان کرنے لگا، تو اس نے غلطیاں کیں۔
(الجرح والتعديل: 253/2)
❀ حافظ ہشیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفه الجمهور
اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد: 100/4، 169/8)
❀ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے منقول ہے:
إذا وجبت الصفقة فلا خيار
جب سودا طے ہو جائے، تو اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
(المُحلى لابن حزم: 238/7)
سند ضعیف ہے۔ ہشیم بن بشیر کا عنعنہ ہے۔ مغیرہ بن مقسم ضبی کا عنعنہ ہے۔
❀ محمد بن فضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان المغيرة يدلس؛ فكنا لا نكتب عنه إلا ما قال: حدثنا إبراهيم
مغیرہ بن مقسم تدلیس کرتے تھے، تو ہم ان سے وہی روایت لکھتے تھے، جس میں انہوں نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے سماع کی صراحت کی ہوتی تھی۔
(مسند علي ابن الجعد: 644، وسنده حسن)
❀ امام مالک رحمہ اللہ (179ھ) فرماتے ہیں:
ليس لهذا عندنا حد معروف، ولا أمر معمول به فيه
اس حدیث (ابن عمر رضی اللہ عنہ) کی ہمارے نزدیک کوئی معروف صورت نہیں، نہ اس حدیث پر عمل ہے۔
(موطأ الإمام مالك: 671/2)
امام مالک رحمہ اللہ کے جواب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
قد عمل جمهور الأئمة بمقتضاه، أولهم عبد الله بن عمر راوي الحديث
اس حدیث پر جمہور ائمہ نے عمل کیا ہے، ان میں سب سے پہلے راوی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔
(سير أعلام النبلاء: 65/10)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے