بیع عربون کا حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

57- بیع عربون (سائی یا بیعانہ) کا حکم
بیعانہ کے ذریعے سے فروخت جائز ہے، یہ سائی کی وہ قیمت ہوتی ہے جو کسی سودے کو پکا کر کے ساری قیمت ادا کرنے سے پہلے بائع یا اس کے وکیل کو دی جائے اور حساب بیباق کرتے وقت وضع کر لی جائے تاکہ اس فروخت شدہ چیز کی ضمانت مل جائے کہ کوئی دوسرا اسے نہیں خرید سکے گا، اگر خریدار وہ سامان نہ لے تو بائع اس بیعانے کو اپنے پاس رکھنے اور اسے اپنی ملکیت میں لانے کا مجاز ہو گا۔
بیعانہ کی فروخت صحیح ہے چاہے باقی ماندہ رقم ادا کرنے کا کوئی وقت مقرر ہو یا غیر مقرر، سودا پکا ہو جانے اور سامان اپنے قبضے میں کر لینے کے بعد بائع قانونی طور پر اس کی قیمت کے مطالبے کا حق رکھتا ہے۔
بیعانے کے جواز پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فعل دلالت کرتا ہے۔ امام احمد بیعانے کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب اور امام ابن سیرین کا قول ہے کہ اگر وہ سامان لوٹانے میں ناپسندیدگی محسوس کرے اور اس کے ساتھ کوئی چیز بھی واپس کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس سلسلے میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعانے سے منع فرمایا ہے۔ [ضعيف۔ سنن ابن ماجه، رقم الحديث 2192]
وہ ضعیف حدیث ہے، اسے امام احمد وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے، لہٰذا اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔
[اللجنة الدائمة: 19637]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل