بیس رکعت تراویح پر حنفی دلائل کا منصفانہ جائزہ
آٹھ رکعات نماز تراویح کے مسنون ہونے پر ناقابل تردید دلائل موجود ہیں جبکہ بیس رکعت تراویح کو مسنون قرار دینا درست نہیں ، اس کے دلائل کا علمی و تحقیقی مختصر، مگر جامع جائزہ پیش خدمت ہے۔
پہلی روایت:
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 294/2، السنن الكبرى للبيهقي : 496/2، المعجم الكبير للطبراني : 393/11)
تجزیہ:
سخت ضعیف ہے ، ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان متروک الحدیث ہے۔
❀ علامه قدوری حنفی رحمہ اللہ نے کذاب کہا ہے۔
(التجريد : 203/1)
❀ علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هو معلول بابي شيبة ابراهيم بن عثمان، جد الامام ابي بكر ابن ابي شيبة، وهو متفق على ضعفه، ولينه ابن عدي في الكامل ، ثم انه مخالف للحديث الصحيح عن ابي سلمة بن عبد الرحمن انه سال عائشة : كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت : ما كان يزيد في رمضان، ولا في غيره على احدى عشرة ركعة
یہ روایت ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے، جو کہ امام ابوبکر بن ابو شیبہ کا دادا ہے۔ اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں اسے کمزور قرار دیا ہے۔ نیز یہ روایت اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابوسلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔
(نصب الراية : 153/2)
ابوشیبہ کی روایت اور علمائے احناف
(ا) علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب فرماتے ہیں۔
اما النبي صلى الله عليه وسلم، فصح عنه ثمان ركعات، واما عشرون ركعة، فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق
آٹھ رکعات تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں اور بیس رکعت کی روایت ضعیف ہے، اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔
(العرف الشذي : 166/1)
(ب) علامہ عبدالشکور فاروقی دیوبندی صاحب نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(علم الفقہ ، ص 198)
(ج) مفتی دارالعلوم دیو بند، علامہ عزیز الرحمن صاحب فرماتے ہیں۔
ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
(فتاوی دار العلوم دیوبند : 249/1)
(د) علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ضعيف بابي شيبة، متفق على ضعفه، مع مخالفته للصحيح
حدیث ضعیف ہے، کیوں کہ ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان ) بالاتفاق ضعیف ہے، نیز یہ حدیث ( صحیح بخاری وصحیح مسلم کی ) صحیح ( حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا) کے بھی خلاف ہے۔
(منحة الخالق : 66/2)
یہی بات علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ (فتح القدير : 81/46)، علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (عمدة القاري : 177/17)، ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ (البحر الرائق : 62/6)، ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ (رد المحتار : 521/1) ، ابوالحسن شرنبلانی حنفی رحمہ اللہ (مراقي الفلاح : 442) لمحطاوى حفى رحمہ اللہ (حاشية الطحطاوي على الدر المختار : 295/1) وغیرہم نے بھی کہی ہے۔
❀ امام صالح بن محمد جزرہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
(تاريخ بغداد للخطیب : 21/7 ، وسنده صحيح)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔
(فتح الباري : 254/4)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا الحديث ضعيف جدا ، لا تقوم به حجة
یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔
(المصابيح في صلاة التراويح : 17)
مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب اپنی کتاب جاء الحق(2 /243 ) میں نماز جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو کی بحث میں امام ترمدی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں۔
ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ منکر حدیث ہے۔
لیکن اپنی اسی کتاب (447/1 ) کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ لمعات المصابیح علی ركعات التراویح میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ یہ منصفانہ رویہ نہیں ہے، واللہ اعلم! نیز اس روایت میں حکم بن عتیبہ مدلس ہیں ،سماع کی تصریح نہیں کی۔
دوسری روایت:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چوبیس رکعتیں اور تین رکعات وتر پڑھائے۔
(تاريخ جُرجان لأبي قاسم حمزة بن يوسف السهمي، ص 275)
تجزیہ:
من گھڑت روایت ہے۔
➊ عمر بن ہارون بلخی متروک وکذاب ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل، امام عبد الرحمن بن مہدی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام مجلی، امام علی ابن مدینی ، امام نسائی، امام دار قطنی ، امام ابن حبان اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ وغیرہم نے مجروح اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔
حافظ ابوعلی نیشا پوری رحمہ اللہ نے متروک کہا ہے۔
امام یحییٰ بن معین اور امام صالح جزرہ رحمہما اللہ نے کذاب کہا ہے۔
امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
الناس تركوا حديثه
محدثین نے اس کی حدیث کو متروک کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 141/6)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
اجمع على ضعفه
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔
(تلخيص المستدرك : 848)
➋ محمد بن حمید رازی ضعیف وکذاب ہے۔
➌ ایک غیر معروف راوی ہے۔
تیسری روایت:
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو نماز پڑھایا کریں۔
فرمایا : لوگ دن میں روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن قراءت اچھی طرح نہیں کر سکتے ، اگر آپ رات کو ان پر قرآن پڑھیں تو اچھا ہو۔
سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: امیر المومنین! پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : معلوم ہے، تاہم یہ ایک اچھی چیز ہے، چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بائیس رکعات پڑھائیں۔
سند ضعیف ہے۔
(الأحاديث المختارة للضياء : 1161 ، كنز العمال : 409/8)
تجزیہ:
امام ابن حبان رحمہ اللہ ربیع بن انس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
الناس يتقون حديثه، ما كان من رواية ابي جعفر عنه، لان فيها اضطراب كثير
محمد ثین اس کی ان روایات سے بچتے ہیں، جو ابو جعفر نے ان سے بیان کی ہیں، کیونکہ ان میں بہت اضطراب ہے۔
(الثقات : 228/4)
مذکورہ بالا روایت بھی ربیع بن انس سے عیسی بن ابوعیسی بن ماہان ابو جعفر رازی بیان کر رہا ہے، یہ جرح مفسر ہے، جسے رد کرنا جائز نہیں۔
چوتھی روایت:
حسن بصری رحمہ اللہ سے منسوب ہے۔
ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه جمع الناس على ابي بن كعب، فكان يصلي لهم عشرين ركعة
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع کیا، وہ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے۔
(سير أعلام النبلاء : 400/10 ، جامع المسانيد والسنن لابن كثير : 55/1)
تجزیہ:
① عشرين ركعة کے الفاظ صریح تحریف کا شاخسانہ ہیں۔ اصل الفاظ عشرين ليلة تھے۔
بعض ناشرین نے بیس راتوں کے الفاظ کو بدل کر عشرين ركعةر دیا ،صد افسوس!
سنن ابو داؤد کے کسی نسخہ میں رکعتوں کے الفاظ نہیں ہیں۔
تمام نسخوں میں راتوں کا ہی ذکر ہے۔
حال ہی میں محمد عوامہ کی تحقیق سے جو سنن ابوداود کا نسخہ چھپا ہے، جس میں سات آٹھ نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، اس میں بھی عشرين ليلة یعنی راتوں ہی کا ذکر ہے۔
علامہ محمد عوامہ فرماتے ہیں۔
من الاصول كلها
تمام بنیادی نسخوں میں یہی الفاظ ہیں۔
(سنن أبي داود بتحقيق محمد عوّامة : 256/2)
عشرين ركعة کے الفاظ محرف ہونے پر ایک زبر دست دلیل یہ بھی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ السنن الكبرى : 298/2 نے یہی روایت امام ابوداود رحمہ اللہ کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں عشرين ليلة ( بیس رات ) کے الفاظ ہیں۔
یہی الفاظ فقہائے احناف اپنی کتابوں میں ذکر کرتے رہے ہیں۔
رہا مسئلہ سیر اعلام النبلاء اور جامع المسانید و السنن میں عشرين ركعةکے الفاظ کے پائے جانے کا، تو یہ ناسخین کی غلطی ہے، کیوں کہ سنن ابو داؤد کے کسی نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں، یہاں تک کہ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے شرح ابی داود (343/5) میں صرف عشرين ليلة کے الفاظ ذکر کیے ہیں نسخوں کا اختلاف تک ذکر نہیں کیا۔
اگر ركعة کے الفاظ کسی نسخے میں ہوتے تو علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ ضرور بالضرور نقل کرتے۔
اسی لیے علامہ شوق نیموی حنفی رحمہ اللہ (1322 ) نے بھی اسے بیس رکعت تراویح کے دلائل میں ذکر نہیں کیا۔
② اگر بعض حضرات کی بات صحیح تسلیم کر لی جائے، تو بھی یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتی۔
علامہ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (1346ھ ) لکھتے ہیں۔
ایک عبارت بعض نسخوں میں ہو اور بعض میں نہ ہو، تو وہ مشکوک ہوتی ہے۔
(بذل المجهود : 471/4، بیروت)
علامہ سرفراز خان صفدر صاحب ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
جب عام اور متداول نسخوں میں یہ عبارت نہیں، تو شاذ اور غیر مطبوعہ نسخوں کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے؟
(خزائن السنن: 97/2)
لہذا فریق ثانی کے مذکورہ اصول سے بھی روایت مشکوک ہوئی۔
مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب (1391 ھ) نے بھی اس روایت میں عشرين ليلة کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
(جاءالحق 95/2 ، بحث قنوت نازلہ پڑھنا منع ہے)
③ نیز یہ انقطاع کی وجہ سے ضعیف بھی ہے۔
❀ علامہ زیلعی حنی رحمہ اللہ اور علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
لم يدرك عمر بن الخطاب
حسن بصری رحمہ اللہ نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
(نصب الراية : 126/2 ، شرح أبي داود : 343/5)
لہذا یہ روایت منقطع ہوئی۔
④ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
( شرح أبي داود : 343/5)
⑤ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے۔
(خلاصة الأحكام : 565/1)
⑥ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گیارہ رکعت تراویح بمع وتر کا حکم دینا صحیح سند سے ثابت ہے۔
(المؤطّاً للإمام مالك : 115/1 ، السنن الكبرى للبيهقي : 496/2، شرح معاني الآثار للطحاوي : 293/1، معرفة السنن والآثار للبيهقي : 42/4، فضائل الأوقات للبيهقي : 274 ، قيام الليل للمروزي : 220 ، وسنده صحيح)
پانچویں روایت:
یزید بن رومان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لوگ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔
(المؤطأ للإمام مالك : 98/1 ، السنن الكبرى للبيهقي : 494/1)
تجزیہ:
سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یزید بن رومان نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يزيد بن رومان لم يدرك عمر بن الخطاب
یزید بن رومان نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
(نصب الراية للزيلعي : 163/2)
لہذا یہ روایت منقطع ہوئی ، جبکہ موطا امام مالک میں اس منقطع روایت سے متصل پہلے صحیح و متصل سند کے ساتھ ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔
❀ علامہ انورشاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں۔
ترجيح المتصل على المنقطع
ضابطہ یہ ہے کہ متصل کو منقطع پر ترجیح ہوتی ہے۔
(العرف الشذي : 11)
❀ علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں۔
روایت موطا امام مالک منقطع ہے۔
(اشرف الجواب :172)
صحیح احادیث کے مقابلہ میں منقطع روایت سے حجت پکڑ نا درست نہیں۔
چھٹی روایت:
یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھائے۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 393/2)
تجزیہ:
سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
علامہ نیموی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يحيى بن سعيد لم يدرك عمر
یحی بن سعید انصاری نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
(التعليق الحَسَن : 253)
ساتویں روایت:
عبدالعزیز بن رفیع بیان کرتے ہیں کہ سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کو مدینہ میں بیس رکعات اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 393/2)
تجزیہ:
سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
❀ علامہ نیموی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
عبد العزيز بن رفيع لم يدرك ابي بن كعب
عبد العزیز بن رفیع نے سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
(التعليق الحَسَن : 253)
آٹھویں روایت:
سید نا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ رمضان میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔
(مسند علي بن الجعد : 2825 ، السنن الكبرى للبيهقي : 496/2 ، وسنده صحيح)
تجزیہ:
یہ بیس رکعتیں پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ اور لوگ تھے، کیوں کہ صحابی رسول سید نا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں۔
كنا اي الصحابة نقوم في عهد عمر بن الخطاب باحدى عشرة ركعة
ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات نماز تراویح بمع وتر پڑھتے تھے۔
(سنن سعيد بن منصور، نقلا عن الحاوي للفتاوي للسيوطي : 349/1، حاشية آثار السنن للنيموي الحنفي : 250 ، وسنده صحيح)
علامہ سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
اسناده في غاية الصحة
اس کی سند انتہا درجے کی صحیح ہے۔
(شرح المنهاج ، نقلا عن الحاوي للفتاوي للسيوطي : 350/1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف دوسرے لوگوں کا عمل حجت نہیں، نیز روایت میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کہ آیا یہ غیر معروف لوگ ہیں رکعات سنت موکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے یا ویسے نفل کے طور پر پڑھتے تھے۔
اگر کوئی آٹھ کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ کو زائد نفل سمجھ کر پڑھے، تو اس میں کیا حرج ہو سکتا ہے، یہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔
❀ علامہ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب کہتے ہیں۔
ابن ہمام نے آٹھ رکعات کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔
(براہین قاطعہ :18)
❀ مزید لکھتے ہیں۔
سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو با تفاق ہے، اگر خلاف ہے، تو بارہ میں۔
(براہین قاطعہ : 195)
نویں روایت:
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تئیس رکعات تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
(معرفة السنن والآثار للبيهقي : 42/4)
تجزیہ:
شاذ ہے۔ امام مالک، امام یحییٰ بن سعید قطان اور امام در اوردی رحمہ اللہ وغیرہم کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس میں شذوذ ہے۔
اگر چہ خالد بن مخلد ثقہ ہے، لیکن کبار ثقات کی مخالفت کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہ ہوگی۔
اسی روایت میں کبار ثقات گیارہ رکعات بیان کر رہے ہیں۔
دسویں روایت:
ابو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سید نا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قرائے کرام کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔ سید نا علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔
(السنن الكبرى للبيهقي : 496/2)
تجزیہ:
روایت ضعیف ہے۔
➊ حماد بن شعیب ضعیف ہے۔
امام یحییٰ بن معین ، امام ابوزرعہ، امام نسائی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
➋ عطاء بن السائب مختلط ہے۔
حماد بن شعیب ان لوگوں میں سے نہیں، جنہوں نے اس سے قبل از اختلاط سنا ہے۔
گیارھویں روایت:
ابوحسناء بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 393/2)
تجزیہ:
سند ضعیف ہے۔ ابو حسناء مجہول ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
لا يعرف
غیر معروف ہے۔
(میزان الاعتدال : 515/4)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معروف راویوں کی روایات کا مکلف نہیں ٹھہرایا۔
بارھویں روایت:
⑭ اعمش رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس تراویح۔ پڑھا کرتے تھے۔
(مختصر قیام اللیل للمروزی : 157)
تجزیہ:
سند ضعیف ہے۔ عمدۃ القاری (127/11) میں یہ روایت حفص بن غیاث عن۔
الاعمش کے طریق سے ہے جبکہ حفص بن غیاث اور اعمش دونوں مدلس ہیں سماع کی۔ تصریح نہیں کی۔
گیارہ رکعت تراویح پر ایک تائید
قال الإمام أبو بكر النيسابوري : حدثنا يوسف بن سعيد ثنا حجار عن ابن جريج حدثني إسماعيل بن أمية أن محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد أخبره أن السائب بن يزيد أخبره قال : جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب وتميم الداري فكانا يقومان بمائة في ركعة فما ننصرف حتى نري أو نشك في فروع الفجر قال: فكنا نقوم بأحد عشر قلت : أو واحد وعشرين قال : لقد سمع ذلك من السائب بن يزيد ابن خصيفة فسألت يزيد بن حصيفة فقال : حسبت أن السائب قال : أحدا وعشرين
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لیے جمع کر دیا یہ دونوں ایک رکعت میں سو آیات پڑھاتے تھے پھر جب ہم نماز سے فارغ ہونے لگتے تو ہم کو گمان ہوتا کہ فجر ہو چکی ہے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔
اس روایت کے راوی اسماعیل بن امیہ رحمہ اللہ نے جب محمد بن یوسف رحمہ اللہ سے سنا تو پوچھا گیارہ رکعات یا اکیس رکعات محمد بن یوسف رحمہ اللہ نے کہا اس طرح کی بات یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے سنی ہے اسماعیل بن امیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں سوال کیا انہوں نے کہا میرا گمان ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے۔
(فوائد أبي بكر النيسابوري : 16)
یادرہے کہ محمد بن یوسف نے گیارہ رکعت بیان کی ہیں۔ اسماعیل بن امیہ نے جب محمد بن یوسف سے پوچھا کہ گیارہ یا اکیس کہنے لگے کہ اکیس والی بات یزید بن خصیفہ نے سنی تھی۔ اسماعیل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے پوچھا کہ واقعی آپ نے اکیس والی سنی ہے کہنے لگے میرا گمان ہے کہ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس بیان کی ہیں۔
اکیس رکعت بیان کرنے میں یزید بن خصیفہ کو وہم ہوا ہے کیوں کہ۔
➊ یزید بن خصیفہ نے حسبتُ کہہ کر شک کا اظہار کیا ہے۔
➋ یزید بن خصیفہ جب حفظ سے بیان کریں تو اکثر وہم کا شکار ہو جاتے ہیں۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
كان يهم كثيرا إذا حدث من حفظه
جب حافظے سے بیان کرے تو بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتے ہیں۔
(مشاهير علماء الأمصار : 1066)
یہاں یہ روایت یزید بن خصیفہ نے اپنے حافظے سے ہی بیان کی ہے۔
لہذا یہ ان کا وہم ہے جیسا کہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
جبکہ محمد بن یوسف سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے ہی بلاتر دو گیارہ رکعت بیان کرتے ہیں۔
پھر اسماعیل بن امیہ محمد بن یوسف سے بیان کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ چھ اور شاگردوں نے محمد بن یوسف سے یہی روایت گیارہ رکعت کے الفاظ سے بیان کی ہے کسی نے بھی محمد بن یوسف پر اعتراض نہیں کیا۔ ملاحظہ ہو۔
➊ امام مالک بن انس رحمہ اللہ۔ (موطا امام مالک: 138)
➋ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ۔ (فوائد ابی بکر نیشا پوری :17)
➌ اسماعیل بن جعفر انصاری رحمہ اللہ۔ (احادیث اسماعیل بن جعفر : 140)
➍ عبد العزیز بن محمد دراوردی رحمہ اللہ۔(سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوى للسيوطى : 416/1)
❀ علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في الموطأ وفي مصنف سعيد بن منصور بسند في غاية الصحة عن السائب بن يزيد : إحدى عشرة ركعة
موطا امام مالک اور سنن سعید بن منصور میں حد درجہ کی صحیح سند سے مروی ہے کہ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت کا ذکر کیا۔
(الحاوي للفتاوي للسيوطى : 417/1)
➎ امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :7671)
➏ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ۔ (فوائد ابی بکر نیشا پوری :19)
تمام شاگرد اپنے استاذ محمد بن یوسف رحمہ اللہ سے گیارہ رکعات ہی بیان کرتے ہیں۔ کوئی تردد یا شک کا اظہار نہیں کرتا۔ ثابت ہوا کہ اسماعیل بن امیہ کا محمد بن یوسف سے استفسار کرنا تردید شک کی بنا پر نہ تھا۔ والحمد للہ۔
❀ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے اکیس رکعت کے الفاظ یزید بن خصیفہ کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کیے۔
مصنف عبد الرزاق (7733) کی ایک روایت میں الحارث بن عبد الرحمن بن ابی ذباب سدوسی سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے 23 رکعات کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ روایت ہی جھوٹی ہے۔
➊ ابراہیم بن محمد اسلمی متروک وکذاب ہے۔
➋ امام عبدالرزاق بن ہمام رحمہ اللہ مدلس ہیں سماع کی تصریح نہیں کی۔
جو احباب یزید بن خصیفہ رحمہ اللہ کی 21 رکعات والی روایت کو درست مان کر مسنون۔
20 رکعات تراویح کی دلیل بناتے ہیں انہیں ایک وتر کے جواز کا فتویٰ بھی دینا پڑے گا کیا۔ ہمارے بھائی ایک وتر کا فتوی دیں گے۔
الحاصل۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے ہیں تراویح پڑھنا قطعا ثابت نہیں سنت صرف آٹھ رکعات ہیں۔
❀ علامہ زرکشی رحمہ اللہ (794ھ) فرماتے ہیں۔
دعوى أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم في تلك الليلة عشرين ركعة لم يصح
یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات صحابہ کرام کو بیس رکعت پڑھائی تھیں درست نہیں۔
(المصابيح في صلاة التراويح للسيوطي)
❀ حافظ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) فرماتے ہیں۔
الحاصل أن العشرين ركعة لم تثبت من فعله صلى الله عليه وسلم
خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں تراویح پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
(المصابيح في صلاة التراويح)
باقی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ امام ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ امام سوید بن غفلہ رحمہ اللہ یہ وغیرہم کا ہیں رکعت پڑھنا ہمارے احباب کے لئے مفید نہیں کیونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیس رکعت کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق کا فہم عطا فرمائے آمین۔