سوال
کچھ لوگوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بغیر نکاح کے گھروں میں بٹھائے رکھتے ہیں اور ان کا رشتہ کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہم پلہ یا ثانی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کا نکاح کسی شخص سے کرنے کے بجائے قرآن پاک سے کر دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے حق معاف کروا دیا ہے، اب ہم پر کوئی حق باقی نہیں رہا۔
کیا ان کا یہ طرزِ عمل درست ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان لوگوں کا یہ عمل سراسر غلط ہے، کتاب و سنت کے ارشادات کے خلاف ہے اور اپنی بیٹیوں پر بہت بڑا ظلم ہے۔ ایسے ظالموں پر اللہ کی سخت گرفت ہوگی۔ یہ طرزِ عمل عرب کے زمانۂ جاہلیت کی مکمل نقل ہے۔ عرب کے جاہل لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمارا کوئی ہم پلہ نہیں ہے، اسی لیے وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ آج کے دور میں لوگوں نے بچیوں کو زندہ دفنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے، وہ یہ کہ انہیں بغیر نکاح کے بٹھا دیا جائے۔ یہ بھی بیٹیوں پر ظلم عظیم ہے اور زندہ دفنانے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ﴾ (النور: ٣٢)
’’تم میں سے جو مرد یا عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو۔‘‘
اس ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق، ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں (جو بلوغت کو پہنچ چکی ہوں) کی شادی کرے، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب۔ ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی لڑکی کو اس کے شوہر کے حوالے کرے۔ جو کوئی اس حکمِ الٰہی کی نافرمانی کرے گا وہ عند اللہ سخت مجرم ہوگا۔
"حق معاف کروا دینا” ایک بدعت
یہ کہنا کہ ہم نے اپنے حق معاف کروا دیا ہے، دین میں نیا اضافہ (احداث) اور بہت بڑی بدعت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اپنے حقوق معاف نہیں کروائے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنت
(بچیوں کی قرآن پاک سے شادی کرنے کے بجائے) رسول اللہ ﷺ نے باوجود اس کے کہ حقیقتاً آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہ تھا، اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں کر کے یہ سنت قائم فرما دی کہ کوئی بھی بچی (جب وہ بالغ ہو جائے) نکاح کے بغیر نہیں بیٹھائی جا سکتی۔
اب جو کوئی بھی آپ ﷺ کے طریقے سے منہ موڑتا ہے یا اپنی بیٹیوں کو آپ ﷺ کی بیٹیوں سے افضل سمجھتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی خیر مانگے، کیونکہ آپ ﷺ کے طریقے کا مخالف مسلمان ہی نہیں رہتا۔
عبرت کا سامان
ایسے لوگوں کی گندی روش کے جو نتائج سامنے آتے ہیں، وہ ہر صاحبِ عقل کے لیے سامانِ عبرت ہیں۔ اس لیے جو کوئی اپنے آپ کو ان برے نتائج سے بچانا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر کاربند ہو جائے۔
خلاصہ کلام
◄ یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے۔
◄ یہ طرزِ عمل گندہ اور خلافِ اسلام ہے۔
◄ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کے سراسر مخالف ہے۔
◄ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس سے اپنے آپ کو بچائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب