بچوں کو مسجد میں لے جانا
انہی (مذکورہ) احادیث کی بنیاد پر بعض اہل علم نے بچوں کو اور خصوصاً جو پاک و ناپاک کی تمیز نہیں رکھتے۔ انہیں مسجد میں لے جانے کو مکروہ لکھا ہے۔ لیکن یہ احادیث ضعیف ہیں۔ لہذا ان کی بنیاد پر تو یہ صحیح نہیں ہے۔ البتہ اگر مسجد میں بچے کو لے جانا ہی ہو تو اسے پورا ساتر لباس پہنائیں اور پیشاب و پاخانہ کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ پیمپر وغیرہ باندھیں۔ جیسا کہ نماز کے لیے ضروری لباس کے موضوع میں بھی یہ بات ذکر کی جا چکی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھانا، بچوں کے مسجد میں لے جانے کے جواز کی دلیل ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ کتب حدیث میں بخاری و مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابی عوانہ و احمد اور سنن بیہقی میں آیا ہے۔
بخاری 516، 5996 ـ مسلم مع نووی 32،31/5/3۔ صحيح ابی داؤد 11 812 صحیح نسائی 687 – موطا امام مالك 170/1، 18 – الفتح الرباني 119/4، 120 – شرح السنه 263/3 – الارواء 106/3
ایسے ہی صحیح بخاری، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنا چاہتا ہوں:
فأسمع بكاء الصبي
پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں۔
لہذا میں نماز ہلکی پڑھا دیتا ہوں، تاکہ بچے کی ماں کے لیے باعث مشقت نہ بنوں۔
بخاری 236/2 حدیث 707 – مسلم مع نووی 187/4/2 – صحیح ابی داؤد 708 صحیح نسائی -792- مسیر ابن ماجه 991
یہ حدیث بھی دلیل جواز ہے۔ لیکن حفاظتی تدابیر واجب ہیں، تاکہ مسجد میں گندگی پیدا نہ ہونے پائے۔
مسجد کو بچوں کی تعلیم کے لیے مکتب و مدرسہ بنانا:
بچوں کو مسجد میں داخل کرنے کی ممانعت کے سلسلہ میں جو احادیث ذکر کی جا چکی ہیں۔ انہی کو پیش نظر رکھ کر بعض اہل علم نے یہ کہا ہے۔ کہ بچوں کی تعلیم کے لیے بھی مسجد کا استعمال جائز نہیں ہے۔ اور چونکہ وہ احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چناںچہ علامہ بدر الدین زرکشی نے ”اعلام الساجد“ میں لکھا ہے کہ:
کسی خاص ضرورت کے بغیر پاک و ناپاک میں تمیز نہ کر سکنے والے بچوں کو مسجد میں داخل کرنا مکروہ ہے۔ کیونکہ ان سے مسجد میں نجاست پھیلانے کا خدشہ رہتا ہے۔
اور امام نووی رحمہ اللہ نے ”روضۃ الطالبین“ میں تو بچوں اور دیوانوں کے مسجد میں داخلے کو مطلقاً ممنوع لکھا ہے۔
البتہ صحیح مسلم کی شرح میں اسے جائز قرار دیا ہے۔
اعلام الماجد ص 312، 313 ـ و شرح نووی 31/5/3،1871412
اور یہ تو مطلق دخول کی بات ہوئی جب کہ اس سلسلہ میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ جواز کا پہلو راجح ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر نماز پڑھنے اور لمبی نماز کے ارادے کے باوجود کسی بچے کی آواز سن کر نماز ہلکی پڑھ لینے کے عمل نبوی کا یہی تقاضا ہے۔
اب رہا معاملہ مسجد کو مکتب و مدرسہ بنا لینے کا تو اس سلسلہ میں علامہ جمال الدین قاسمی نے ”اصلاح المساجد“ میں لکھا ہے کہ:
یہ صرف اسی صورت میں جائز ہے۔ جب کہ کوئی مسجد غیر آباد ہو اور نماز و عبادت کے لیے وہاں کوئی نہ آتا ہو۔ ان کے نزدیک نمازیوں اور عبادت گزاروں سے آباد مسجد میں قرآن پڑھانے، لکھائی اور پڑھائی، ابتدائی امور سکھلانے کا مدرسہ کھول بیٹھنے سے مسجد کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
اصلاح المساجد ص 218، 219 ، اردو
اور علامہ زرکشی نے قفال سے ذکر کیا ہے، کہ جب ان سے مسجد میں بچوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
چھوٹے بچے زیادہ تر مسجد کو نقصان ہی پہنچاتے ہیں۔ لہذا انہیں منع کرنا جائز ہے۔
اور امام قرطبی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے، کہ بعض علماء نے مسجد میں بچوں کی تعلیم کو منع کہا ہے۔ اور انہوں نے اسے خرید و فروخت کے ضمن میں شمار کیا ہے۔ لیکن یہ تو تب ہے کہ جب مسجد میں تعلیم دینے والا اس کی باقاعدہ تنخواہ لیتا ہو۔ اور اگر کوئی اجرت کے بغیر پڑھائے تو اسے بھی انہوں نے جائز قرار نہیں دیا۔ اور یہ اس لیے کہ بچوں سے مسجد میں غلاظت و گندگی پھیلنے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اور یہ مسجد کی صفائی و ستھرائی کے منافی ہے۔ جب کہ مسجدوں کی نظافت اور صفائی و ستھرائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور آگے انہوں نے بھی اس حدیث سے استدلال کیا ہے، جو ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔
اعلام الساجد ص 327
اور بعض دیگر اہل علم نے بھی بچوں کی تعلیم کی ممانعت والوں کا قول ذکر کیا ہے۔ اور انہوں نے لکھا ہے کہ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے بھی آواز بلند کرنی پڑتی ہے۔ بلکہ بچوں کا شور بھی ہوتا ہے۔ لہذا اس وجہ سے بھی بعض علماء نے ممنوع کہا ہے۔
غرض اس تفصیل سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، کہ بہت چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے جانے سے پرہیز کیا جائے۔ یا پھر ساتر لباس اور ضروری احتیاط کر کے لے جائیں۔ اور اگر کوئی اللہ کا بندہ لوجہ اللہ مسجد میں بچوں کو قرآن پڑھانا چاہے تو اس کے پاس پڑھنے کے لیے صرف ان بچوں کو بھیجا جائے، جو کچھ سمجھدار ہوں۔ اور پاک و ناپاک کی تمیز رکھتے ہوں۔ اور ویسے بھی مسجد میں یا مکتب میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایسے ہی بچوں کو بھیجا جاتا ہے۔
اور اب رہیں وہ بعض خواتین جو مسجد قریب ہونے کا فائدہ اٹھانے کے لیے جب چھوٹے بچوں کے شور و شغب اور توڑ پھوڑ سے تنگ آ جاتی ہیں، اور صبح نہیں تو عصر کے بعد والے حصہ میں اپنے ان بچوں یا بچیوں کو بھی بڑی اولاد کے ساتھ ہی مسجد میں بھیج دیتی ہیں۔ جنہوں نے نہ کچھ پڑھنا ہوتا ہے نہ لکھنا۔ اور ان خواتین کا خیال یہ ہوتا ہے، کہ چلیں کچھ وقت یہ باہر جا کر (مسجد میں) ہی گزار آئیں گے تو تھوڑی دیر کے لیے ذرا ہم سستالیں گے۔ اور قدرے سکون رہے گا۔
ایسی خواتین کو خاص طور پر اپنے اس رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ اس کا تقدس و احترام اور آداب ہیں۔ وہ کوئی گراؤنڈ تو ہے نہیں کہ چاہے کسی بھی عمر کے بچے کھیلنے آئیں۔ ہاں جو بچے سمجھدار اور قرآن پاک پڑھنے یا سیکھنے کی عمر کے ہیں۔ انہیں بھیجنے میں کوئی حرج نہیں، خصوصاً جب کہ معلم یا حافظ و قاری مسجد میں تعلیم پر اجرت نہ لیتا ہو۔ جیسا کہ امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے بعض علماء کا قول ذکر کیا گیا ہے۔
بچوں کا مسجد میں آنا یا لانا:
نماز کے لیے ضروری لباس کے ضمن میں بھی بچوں کو مسجد میں لانے کے لیے ضروری تدابیر ذکر کی جا چکی ہیں۔ اور آداب مسجد کے ضمن میں یہ تو ذکر ہو گیا ہے، کہ بعض اہل علم نے بچوں کو مسجد میں لانے اور مسجد میں ان کے لیے مکتب و مدرسہ کھولنے سے اختلاف کیا ہے۔
اور بعض دیگر نے کہا ہے کہ اگر دوسرا کوئی انتظام نہ ہو سکتا ہو، تو بوقت مجبوری بچوں کے مسجد میں پڑھنے کی رعایت ہونی چاہیے۔ ہاں اگر دوسرا انتظام ممکن ہو تو پھر مسجد کو بچوں کے شور شغب وغیرہ سے بچایا جائے۔
جديد فقهی مسائل ص 65
اور مطلق بچوں کے مسجد میں آنے یا لانے کے جواز کے دلائل پر مبنی بعض احادیث بھی ہم ذکر کر چکے ہیں۔ جب کہ اس سلسلہ میں استاذ محترم شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب کا ایک فتویٰ بھی ہفت روزہ” الاعتصام“ میں شائع ہوا ہے۔ جو سوال جواب سمیت ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔
کیا بچے مسجد میں آ سکتے ہیں؟
سوال: رمضان المبارک میں خصوصاً افطاری کے وقت چھوٹے چھوٹے بچے مسجد میں آ جاتے ہیں۔ اور کچھ حضرات ساتھ لے آتے ہیں۔ کچھ بچے جن میں اکثر کا روزہ نہیں، نماز سے پہلے ہی گھر لوٹ جاتے ہیں۔ بقایا نماز کے دوران عموماً مسجد میں دوڑ بھاگ کرتے، باتیں اور شرارتیں بھی کرتے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانی وغیرہ، کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر بچوں کو منع کریں گے تو بڑے ہو کر مسجد میں نہیں آئیں گے، برائے نوازش ارشاد فرمائیں کہ کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لانا چاہیے؟
(حدیث خیر الا نام کے مطابق جیسے کہ اکثر علماء حضرات سے سنا ہے کہ سات سال کی عمر کے بچے کو نماز کی ترغیب دیں۔ دس سال کا ہو جائے تو نہ پڑھنے پر ماریں۔) مسجدیں ہی امن کی جگہ ہیں، اگر مسجد میں ہی خشوع والی نماز نصیب نہ ہو تو کہاں جائیں۔ کیونکہ بچوں کی وجہ سے جیسے اوپر ذکر کیا ہے۔ توجہ ہٹ جاتی ہے۔ بعض یہ حوالہ بھی دیتے ہیں، کہ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کہ منبر پر تشریف فرما تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جن کی عمر اس وقت چار سال تھی وہ مسجد میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اٹھ کر ان کو گود میں لیا۔ اس حوالہ سے بچوں کو مسجد میں لانے یا آنے کا جواز نکلتا ہے۔
الجواب بعون الوهاب: بلا قید عمر کے چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنا یا لانا درست فعل ہے صحیح حدیث میں وارد ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے۔ بوقت سجدہ اسے بٹھا دیتے اور جب قیام کے لیے اٹھنے لگتے تو اٹھا لیتے۔
بخاری باب اذا حمل جارية صغيرة على عنقه في الصلواة
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلى جواز إدخال الصبيان فى المساجد
یعنی اس حدیث میں بچوں کو مسجد میں لانے کا جواز ہے۔
فتح الباری 592/1
نیز صحیح مسلم میں راوی کا بیان ہے:
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يوم الناس وأمامة على عاتقه
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرواتے دیکھا۔ اور امامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار تھی۔
اور سنن ابی داؤد میں راوی کے شک کے ساتھ نماز ظہر یا نماز عصر کا ذکر موجود ہے۔
ظاہر ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے محل و مقام مسجد ہے۔ انہی طرق کے پیش نظر حافظ موصوف نے مذکور نتیجہ اخذ کیا ہے۔
اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ایک بچہ عبد اللہ بن سلمہ قرآت میں امتیازی حیثیت کی بنیاد پر بعمر چھ یا سات سال عہد نبوی میں اپنی قوم کا امام تھا۔
بخاري 616،615/2
واقعہ ہذا سے ظاہر ہے کہ امامت کا شرف موصوف کو مسجد میں ہی حاصل ہوتا تھا۔ اور پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما صغرسنی کے باوجود جماعت میں شرکت فرماتے تھے۔ چنانچہ ان کا بیان ہے۔ کہ میں ایک دفعہ اپنی سواری کو منی میں چرنے کے لیے چھوڑ کر خود جماعت میں شریک ہو گیا تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اور دیگر روایات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ کہ بچوں کا وضو، جماعت میں شرکت، عیدین، جنائز اور صفوں میں موجودگی سب ثابت شدہ امور ہیں۔ جن میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔
مزید آنکہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے لیٹ ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نام النساء والصبيان
یعنی عورتیں اور بچے سو گئے۔
اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أى الحاضرون فى المسجد
یعنی وہ مسجد میں موجود تھے۔
فتح البارى 48/2
اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مسجد میں آمد و رفت متعدد احادیث میں مصرح ہے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ۔
ایک اور صحیح روایت میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کہ میں بچے کا رونا سن کر نماز ہلکی کر دیتا ہوں کہ کہیں یہ امر بچے کی والدہ پر گراں نہ گزرے۔ اسی طرح حدیث مروا اولادكم بالصلواة اذا بلغو اسبعا سے بھی مسجد میں بچوں کی آمد مترشح ہے۔ دوسری طرف محدثین کرام نے چار پانچ سال کے بچہ کا سماع حدیث بھی قابل اعتبار سمجھا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب کہ اسے عام مجلس میں آنے کی اجازت ہو۔ اس میں مسجد بھی شامل ہے۔ حدیث میں وارد ہے:
إنما بنيت المساجد لما بنيت له
یعنی مسجدیں جس کام کے لیے بنائی گئی ہیں۔ وہی کام ان میں ہونا چاہیے۔
زیر حدیث کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
معناه لذكر الله والصلوة والعلم والمذاكرة فى الخير و نحوها
یعنی (اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ) مساجد اللہ کی یاد، نماز، تعلیم و تعلم اور امور خیر میں گفتگو کے لیے بنائی گئی ہیں۔
لہذا عام حالات میں کسی کو حق نہیں کہ بچوں کو مسجد آنے سے روکے۔ البتہ بچے اگر شریر قسم کے ہوں جس سے احترام مسجد اور آداب مسجد مجروح ہوتا ہو تو بطور تادیب ان کے خلاف مناسب کارروائی ہو سکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد میں بچوں کو کھیلنے پر ڈنڈے لگائے تھے۔ ایک روایت میں ہے:
جنبوا مساجدكم صبيانكم
یعنی اپنی مسجدوں کو بچوں سے بچاؤ۔
اسناده ضعف فتح البارى 549/1
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ:
لانهم يلعبون فيها ولا يناسبهم
کیونکہ وہ کھیلتے ہیں۔ اور وہ ان کے مناسب نہیں۔
تاہم مہذب اور مودب بچوں کو بلا روک ٹوک مسجد میں آنے کی اجازت ہے۔ لو لعب اور شور و غل کرنے والوں کا محاسبہ ایک لازمی امر ہے۔ تاکہ مسجد کی طہارت و پاکیزگی میں فرق نہ آنے پائے۔
هفت روزه الا عتصام “ لاهور – جلد 43 شماره 48 – بابت جمادى الاولى 51412 بمطابق 29 نومبر 1991ء