ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج 1، ص 862
سوال
بولی کی کمیٹی کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے؟ ایک شخص ستر ہزار کی چیز پچیس ہزار میں بولی لگا کر حاصل کر لیتا ہے۔ کیا یہ طریقہ سود کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیان کردہ صورت واضح طور پر سود (ربا) اور قمار (جوا) کی شکل ہے، لہٰذا اس سے ہر حال میں بچنا واجب اور ضروری ہے۔
یہ بات مسلمہ (تسلیم شدہ) ہے کہ نوٹ دراصل سونے کا بدل ہیں۔ اس لیے ان کی خرید و فروخت کمی یا بیشی کے ساتھ نقد یا ادھار کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
چاہے قیمت برابر ہو یا کمی بیشی کے ساتھ — ہر حالت میں یہ حرام اور ناجائز ہے۔
اسی بنیاد پر بولی کی کمیٹی کا یہ طریقہ ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب