ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 667
سوال
بولی کی کمیٹی کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
ایک شخص 70,000 کی رقم کو صرف 25,000 میں بولی لگا کر حاصل کر لیتا ہے، تو کیا یہ طریقہ سود کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ صورت واضح طور پر سود اور قمار (جوا) کی شکل رکھتی ہے۔ اس سے ہر حال میں بچنا لازم ہے۔
◈ یہ اصول معروف ہے کہ: نوٹ (کرنسی) سونے کا بدل سمجھے جاتے ہیں۔
◈ اسی وجہ سے، نوٹ کی خرید و فروخت (بیع) اگر نقد (کیس) ہو اور اس میں کمی و بیشی ہو، تب بھی ممنوع ہے۔
◈ اور اگر ادھار کے طور پر ہو، چاہے وہ برابر برابر ہو یا کمی بیشی کے ساتھ ہو، تب بھی یہ ناجائز ہے۔
لہٰذا، اس اصول کی روشنی میں:
بولی کی کمیٹی کا طریقہ ناجائز ہے اور شریعت میں اس سے اجتناب لازم ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب