بولی والی کمیٹی کا شرعی حکم: کیا یہ سودی معاملہ ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 389

بولی والی کمیٹی کی شرعی حیثیت

سوال:

آج کل بولی والی کمیٹی کا بہت زیادہ رجحان پایا جاتا ہے اور بڑے بڑے افراد اس میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا شرعی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت ہے؟ اور کیا یہ سودی کاروبار میں شمار ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بولی والی کمیٹی سود (ربا) کے زمرے میں آتی ہے، کیونکہ اس میں ایک فرد زیادہ رقم حاصل کرتا ہے جبکہ دوسرے افراد کم رقم دیتے ہیں، جو کہ شرعی طور پر ناجائز ہے۔ اس عمل میں واضح طور پر زیادہ مال کو کم مال کے بدلے میں بیچنا پایا جاتا ہے، جو کہ احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں سود میں شامل ہے۔

دلائلِ شرعیہ:

1. حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لاَ تَبِيْعُوْا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ ، وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ، وَلاَ تَبِيْعُوْا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ، وَلاَ تَبِيْعُوْا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ»

ترجمہ:
"سونا سونے کے بدلے میں صرف برابر برابر بیچو، اور کمی بیشی نہ کرو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں بھی برابر برابر بیچو، اس میں بھی کمی بیشی نہ ہو، اور نہ ہی ایک طرف نقد ہو اور دوسری طرف ادھار۔”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

2. حدیث صحیح مسلم میں ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«اَلذَّهَبُ بِالذَّهَبِ ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ»… وفی آخرہ: «فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبٰی، الْآخِذُ وَالْمُعْطِیْ فِيْهِ سَوَاءٌ»

ترجمہ:
"سونا سونے کے بدلے، اور چاندی چاندی کے بدلے (ہو) … اور آخر میں فرمایا: جس نے زیادتی کی یا زیادتی کا مطالبہ کیا، وہ سود میں داخل ہوا، لینے والا اور دینے والا دونوں اس میں برابر ہیں۔”
(صحیح مسلم)

3. صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مزید ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«اَلذَّهَبُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْوَرِقُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلاَّ هَاءَ وَهَاءَ»

ترجمہ:
"سونا سونے کے بدلے میں سود ہے، مگر جب نقد ونقد ہو، اور چاندی چاندی کے بدلے میں بھی سود ہے، مگر جب نقد ونقد ہو۔”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

4. قرآن مجید کی نص صریح:

﴿وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ﴾
— البقرة: 275

ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔”

نتیجہ:

لہٰذا، بولی والی کمیٹی جس میں کوئی شخص کم رقم کے بدلے زیادہ رقم حاصل کرتا ہے، یہ واضح طور پر سود میں شامل ہے، جو کہ شریعت میں حرام ہے۔ اس میں شامل تمام افراد سود کے گناہ میں شریک ہوتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے