سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص خطبہ اور امامت کے فرائض انجام دیتا ہو اور ساتھ ہی تجارت بھی کرتا ہو؟ اس کے بازار میں دکانداروں نے ایک کمیٹی ڈالی ہے، جسے "بولی والی کمیٹی” کہا جاتا ہے۔ اس کمیٹی میں ہر ماہ اس کی رقم کی بولی لگتی ہے اور حاصل ہونے والا منافع ممبرانِ کمیٹی پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
اس کمیٹی کے خزانچی کے پاس مذکورہ امام صاحب بھی اپنی رقم جمع کرواتے ہیں، مگر وہ اس منافع کو غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں اور اس میں سے کچھ نہیں لیتے، بلکہ جتنی رقم جمع کرواتے ہیں، اتنی ہی اپنی اصل رقم واپس وصول کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے امام کے پیچھے نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سوال اور واقعہ درست طور پر بیان کیا گیا ہے، تو بولی والی کمیٹی کی مذکورہ صورت واضح طور پر سود (ربا) کے حکم میں داخل ہے، جو کہ سراسر حرام، ناجائز اور باطل ہے۔ اس سے اجتناب اور پرہیز لازم و ضروری ہے۔
تاہم دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس خزانچی کے پاس اپنی رقم بطورِ امانت اور بچت کے ارادے سے جمع کرواتا ہے، اور بولی کی صورت میں حاصل ہونے والی اضافی رقم سے کوئی حصہ وصول نہیں کرتا، بلکہ اسے حرام سمجھتا ہے، اور جب اس کی باری آتی ہے تو صرف اپنی جمع شدہ رقم وصول کرتا ہے، تو ایسی صورت جائز ہے۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم حفاظت کی نیت سے جمع کروائی جاتی ہے — وہاں بھی کوئی منافع نہیں لیا جاتا، لہٰذا یہ صورت جائز اور مباح ہے۔
لہٰذا، ایسے امام کی اقتدا میں نمازِ جمعہ پڑھنا بالکل جائز اور درست ہے، کیونکہ انہوں نے یہ شرکت صرف جائز بچت کی غرض سے کی ہے، نہ کہ منافع یا سودی فائدہ حاصل کرنے کے لیے۔
مزید یہ کہ، بولی کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم کو "منافع” کہنا بھی غلط ہے، کیونکہ وہ سراسر سود کی ایک شکل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب