بوسہ دینا (چومنا) ناقض وضو نہیں
فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میرا خاوند گھرسے باہر جاتے وقت حتیٰ کہ نماز کے لئے مسجد جاتے وقت بھی ہمیشہ میرا بوسہ لے کر جاتا ہے۔ میں کبھی تو یہ سمجھتی ہوں کہ وہ ایسا شہوت سے کرتا ہے، اس کے وضو کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
جواب : ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يقبل بعض ازواجه ثم يصلي ولا يتوضا [رواه أبوداؤد والترمذي والنسائى وابن ماجة]
تحقیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو بوسہ دیا پھر وضو نہ کیا اور نماز (پڑھنے ) کے لئے تشریف لے گئے۔
اس حدیث میں عورت کو مس کرنے اور اس کا بوسہ لینے کی رخصت موجود ہے۔ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک بوسہ بہرحال ناقض وضو ہے، شہوت سے ہو یا شہوت کے بغیر۔ جبکہ بعض کے نزدیک شہوت کی حالت میں ناقض وضو ہے، بصورت دیگر نہیں۔ بعض کے نزدیک وہ کسی بھی حالت میں ناقض وضو نہیں ہے اور یہی قول راجح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کا بوسہ لے، اس کے ہاتھ کو مس کرے یا اس سے بغلگیر ہو، اس دوران نہ تو اسے انزال ہوا اور نہ وہ بے وضو ہوا، تو محض اس عمل سے دونوں میں سے کسی کا بھی وضو خراب نہ ہو گا۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ وضو اپنی حالت پر برقرار رہے گا تاوقتیکہ کوئی ایسی دلیل سامنے نہ آ جائے جس سے معلوم ہو کہ واقعی وضو ٹوٹ گیا ہے، مگر کتاب و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ عورت کو مس کرنا ناقض وضو ہے۔ تو اس اعتبار سے عورت کا بوسہ لینا، اس سے بغلگیر ہونا یا اسے چھو لینا اگرچہ وہ بغیر کسی رکاوٹ اور شہوت کیساتھ ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی حالت میں ناقض وضو نہیں ہے۔ واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے