بندے کو داتا کہنا
داتا ہندی زبان میں اسم صفت ہے اس کے معانی دینے والا۔
اسباب کے ذریعے تو ہر انسان نیک و بد کا فرق شرک عیسائی یہودی مسلم غیر مسلم ہر کوئی دے سکتا ہے۔ اگر اس کے پاس دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہو بغیر اسباب کے صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ”بے شک تو ہی دینے والا ہے۔“
داتا وہ ہے جو ساری مخلوق کو روزی دیتا ہے۔
تمام مخلوقات کو روزی دینا صرف اللہ ہی کا کام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
حضرت علی ہجویری داتا ہیں سوچنے کی بات ہے جب وہ پیدا نہیں ہوئے تھے اس وقت زمین داتا سے خالی تھی ان کے والدین کا داتا کون تھا انہیں کون دیتا تھا۔ داتا تو وہ ہے جو ہر ایک کی سنتا ہے ہر وقت حضرت علی ہجویری تو فوت ہو چکے ہیں اب اگر کسی نے کوئی چیز مانگنی ہوتو وہ کس سے مانگے کیوں اللہ تعالیٰ قبر والوں کے بارے میں فرماتا ہے:
وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سورہ فاطر: 22
(اے پیغمبر) آپ قبر والوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے۔
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں پڑے ہوئے لوگوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے تو ہمارے بھائی حضرت علی ہجویری کو قبر میں اپنی حاجت کیسے سنا سکتے ہیں۔
ساری کائنات کا رزاق صرف اللہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَسورہ العنکبوت: 17
جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تم کو رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے پس اللہ ہی کے ہاں رزق طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ سورہ النمل: 64
بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرنا ہے پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے کون تم کو آسمان زمین سے رزق دیتا ہے تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔
حقیقت میں سب کچھ دینے والا اللہ ہے مگر یہ لوگ دوسروں کو بھی حصہ دار بناتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ سورہ النحل: 56
ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ایسی چیزوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو جانتے ہی نہیں اللہ کی قسم کہ جو تم افتراء کرتے ہو اس کی تم سے ضرور پرسش ہوگی۔
ہر چیز کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی ہے کسی اور کی ہر گز نہیں چنانچہ ارشاد ہے:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ سورہ ہود: 6
اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی یہ سب کچھ کتاب روشن میں لکھا ہوا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُسورہ العنکبوت: 60
اور بہت سے جانور اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سب سننے والا جاننے والا ہے۔
روزی تنگ کرنا فراخ کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور کسی کے اختیار میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سورہ العنکبوت: 62
اللہ ہی اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا تنگ کر دیتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
ایک اور جگہ ارشادفرمایا:
وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا سورہ الطلاق: 3
جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا اللہ اپنے کام کو پورا کر دیتا ہے اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ سورہ سبا: 39
کہہ دو کہ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے اور تم جو خرچ کرو گے اور وہ اس کے عوض دے گا وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ سورہ النحل: 73
اور اللہ کے علاوہ ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمان اور زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ طاقت رکھتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ سورہ فاطر: 3
اے لوگو اللہ کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے اس کے سوا کوئی نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
جس کو اللہ عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا جسے عطا نہ کرے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔
چنانچہ ارشاد فرمایا:
مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورہ فاطر: 2
اللہ جو اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے تو کوئی اس کو بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ سورہ الملک: 21
بھلا وہ اپنا رزق بند کر لے تو کون ہے جو تم کو رزق دے لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ پڑھتے تھے۔
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
صحیح بخاری، باب الذكر بعد الصلوة، حديث: 844، مسلم: 593
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہی ہے وہی حمد وثنا کے لائق ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اے اللہ نہیں روک سکتا جو آپ عطا کریں اور کوئی نہیں دے سکتا جو آپ روک دیں اور نہیں فائدہ دے سکتی کسی دولت مند کو آپ کے سامنے دولت۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی داتا نہیں دینے والا صرف اللہ ہے اللہ کی علاوہ سب فقیر ہیں مانگنے والے ہیں ایک ہی سب کو دینے والا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ سورہ فاطر: 15
اے لوگو تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے پروا سزا وار حمد ثنا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے دربار پر کوئی نذرونیاز دینگے تو ہم مصیبت سے بچ جائیں گے ہمیں وہ بزرگ بچالیں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اٹل فیصلہ فرمایا ہے:
قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا سورہ الفتح: 11
کہہ کہ اگر اللہ تم لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے کسی بات کا اختیار رکھے بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔
اس آیت مبارکہ سے واضح ہو چکا ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی کے پاس نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا پھر ہمیں ہر حال میں اسی پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں کے غلو کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا سورہ المائدہ: 17
کہہ دو کہ اگر اللہ عیسی ابن مریم کو ان کی ماں کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اللہ مولا ہے اور بندے کو بھی مولا نا کہتے ہیں یہ شرک نہیں تو عرض ہے کہ لفظ مولا نا کے کئی معنی ہیں سب سے معروف معنی دوست ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے ارشاد فرمایا:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورہ الاحزاب: 5
مومنو لے پالکوں کو اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک یہی بات درست ہے اگر تم کو ان کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں لفظ مواليكم آیا ہے مولا کی جمع موالی ہے جس کے معنی دوست ہیں جب یہ لفظ غیر اللہ کے لیے استعمال ہوگا تو معنی محدود اور مخصوص ہونگے ۔ اگر کوئی شخص کسی عالم کو مولا نا کہتا تو اگر وہ اللہ کی تمام تر صفات کسی شخص میں مانتا ہے تو یہ شرک ہے اگر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ غائبانہ طور پر مشکل کشا ہے اور وہ بھی ہے۔ اگر اللہ اپنے علم کی اعتبار سے ہر جگہ ہے اور وہ بھی ہے اللہ ہر ایک کو دینے والا ہے اور وہ بھی دینے پر قادر ہے اللہ دلوں کے حال جانتا ہے اور وہ بھی جانتا ہے۔
اللہ دل میں چھپی غیب کی باتوں کو جانتا ہے اور وہ بھی جانتا ہے۔ اللہ مشکل کشا ہے اور وہ بھی مشکل کشا ہے اور اللہ ہر ایک کے حالات سے واقف ہے
اور وہ بھی ہے اور اللہ پر مشکل نہیں اس مولانا پر بھی مشکل نہیں۔
اللہ پر موت نہیں اس پر بھی موت نہیں اللہ ہر ایک کی پکار کو سنتا ہے وہ بندہ بھی ہر ایک کی پکار کو سنتا ہے ان اعتقادات کے ساتھ جو کسی انسان کو مولانا کہہ کر پکارتا ہے تو یہ مشرک فی الصفات ہے اگر کوئی مخلوق دوست کے معنوں میں لفظ مولانا کسی شخص کے لیے یہ استعمال کرتا ہے تو یہ قرآن سے بھی ثابت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے بھی ثابت ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كنت مولاه فعلي مولاه
مسند احمد، 1419/5، طبرانی کبیر
مسند بزار وغیرہ میں ہے جس کا میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے قرآن وسنت سے جو بات ثابت ہے۔ ان الفاظ کا استعمال جائز ہے۔
اگر یہ شرک ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے لیے استعمال نہ کرتے مگر داتا کا لفظ مخلوق کے لیے جو لوگ استعمال کرتے وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم جو کام کر رہے ہیں جس طرح اللہ کی نظر میں ہے اس طرح حضرت علی ہجویری کے علم میں بھی ہے ۔ جس طرح ہر جگہ اللہ ہماری پکار کو سنتا اور قبول کرتا ہے اسی طرح یہ بزرگ بھی سنتا اور قبول کرتا ہے ۔ جس طرح اللہ ہمارے دلوں کے چھپے راز جانتا ہے۔ اسی طرح بزرگ بھی جانتا ہے جس زبان میں کوئی اللہ کو پکارتا ہے وہ ہر زبان جانتا ہے اسی طرح بزرگ بھی جانتا ہے۔ اسی طرح وہ ہماری مشکلات کو دور کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات میں شریک ٹھہرانا ہے۔
علی ہجویری کو گنج بخش (خزانے دینے والا) ماننا
اسی طرح حضرت علی ہجویری کو گنج بخش کہنا یہ فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ جس کا معنی ہے خزانے دینے والا ۔ لیکن گنج بخش صرف اللہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ سورہ المنافقون: 7
آسمان اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے قبضے میں ہیں لیکن منافق نہیں سمجھتے۔
منافق تو نہیں سمجھتے مگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گنج بخش نہ تھے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ سورہ الانعام: 50
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے میں تمہیں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کے خزانے نہیں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا کون ہوگا جو کسی کو خزانے بخشنے والا ہوگا۔
حضرت علی ہجویری نے خود فرمایا کہ میں گنج بخش نہیں مگر لوگ سمجھتے نہیں ۔ حضرت علی ہجویری اپنی کتاب کشف الاسرار میں اپنے آپ کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں۔
اے علی تجھے خلقت گنج بخش کہتی ہے اور عجب لطف ہے کہ تو ایک دانہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا اس بات کا کہ مخلوق مجھے گنج بخش کہتی ہے۔ کبھی خیال تک بھی نہ لا اور نہ محض دعوے اور غرور ہوگا گنج بخش یعنی خزانے بخشنے پر قادر تو صرف اس کی ایک ذات ہے جو بے چوں و بے چگوں اور بے شک وشبہ مالک الملک ہے اور اس کے ساتھ شرک نہ کر بیٹھنا ورنہ زندگی تباہ ہو جائے گی بے شک وہی اکیلا خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
سیرت گنج بخش صفحه 7 ، اکمل اویسی پیرزادہ
ہمارا کام ہے بتا دینا تمہارا کام ہے مانو نہ مانو ۔ ہماری نہ مانو مگر اپنے پیر کی ہی مان لو اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ان بزرگوں کو صرف بطور وسیلہ پکارتے ہیں ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ وہ خدائی صفات سے متصف ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ محض گپ ہے۔
خدائی صفات تسلیم کیے بغیر ان کو مافوق الاسباب طریقہ سے پکارنے کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہتا مگر ایک نظم میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے اندر تمام خدائی صفات کا اثبات کیا گیا ہے جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ بریلوی حضرات کا عقیدہ ان بزرگوں کے بارے میں کیا ہے نظم پیش خدمت ہے غور تو کریں ذرا…!
خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوث اعظم کا
ہمیں دو جہاں میں سہارا غوث اعظم کا
ہماری لاج کس کے ہاتھ میں ہے بغداد والے کے
بلائیں ٹال دینا کام کس کا غوث اعظم کا
جہاز تاجراں گرداب سے فوراً نکل آیا
وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یا غوث اعظم کا
گئے ایک وقت میں ستر مریدوں کے یہاں آقا
سمجھ میں آنہیں سکتا معمہ غوث اعظم کا
شفا پاتے ہیں صدھا جاں بلب امراض مہلک سے
عجب دار الشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا
بلاد الله ملکی تحت حکمی سے یہ ظاہر ہے
کہ عالم میں ہر ایک شے پر ہے قبضہ غوث اعظم کا
فہکمی نافذ في كل حال سے ہوا ظاہر
تصرف انس و جن سب پر ہے آقا غوث اعظم کا
ہوا موقوف فوراً ہی برسنا اہل محفل پر
جو پایا ابر باراں نے اشارہ غوث اعظم کا
جو حق چاہے وہ یہ چاہیں جو یہ چاہیں وہ حق چاہے
تو مٹ سکتا ہے کس طرح چاہا غوث اعظم کا
فقیہوں کے دلوں سے دھو دیا ان کے سوالوں کو
دلوں پر ہے بنی آدم کے قبضہ غوث اعظم کا
وہ قم کہہ کر قم باذن اللہ جلا دیتے تھے مردوں کو
بہت مشہور ہے احیائے موتی غوث اعظم کا
فرشتے مدرسے تک ساتھ پہنچانے کو جاتے تھے
یہ دربار الہی میں ہے رتبہ غوث اعظم کا
لعاب اپنا چٹایا احمد مختار نے ان کو
تو پھر کیسے نہ ہوتا بول بالا غوث اعظم کا
رسول اللہ نے خلعت پہنایا برسرِ مجلس
بجے کیوں کر نہ پھر عالم میں ڈنکا غوث اعظم کا
ہمارا ظاہر اور باطن ہے ان کے آگے آئینہ
کسی شے سے نہیں عالم میں پردہ غوث اعظم کا
ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ جلد 15، شماره 6 مئی 1973ء
اس نظم کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں جو ہم نے دلائل اس سے پہلے تحریر کیے ہیں اور جو بعد میں آیات قرآنی لکھیں گے اس پر غور کرنا اس عقیدے کو قرآن وحدیث کی روشنی میں دیکھنا کہ رب کا حکم کیا ہے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کیا ہے اور ہمارے ان بھائیوں کا عقیدہ کیا ہے پھر فیصلہ خود کر نا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کے پاس بھی اللہ کے خزانے نہ تھے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ سورہ ہود: 31
میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
اس سے ثابت ہوا کہ انبیاء کے پاس بھی اللہ کے خزانوں کا اختیار نہیں اللہ کے رسولوں کے پاس بھی خزانے نہیں تو اور کسی کو خزانے کہاں سے بخشیں گے جب انبیاء گنج بخش نہیں ہو سکتے تو کوئی دوسرا گنج بخش کیسے ہو سکتا ہے۔
گنج بخش صرف اللہ کی ذات ہے اہل ایمان کو اسی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔