کتے اور بلیاں اور ہر خبیث جانور سب حرام ہے
➊ حضرت ابو زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
سألت جابرا عن ثمن السنور و الكلب
”میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے بلی اور کتے کی قیمت کے متعلق دریافت کیا“
تو انہوں نے جواب میں کہا:
زجر النبى عن ذلك
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے جھڑکا ہے ۔“
[مسلم: 1569 ، كتاب المساقاة: باب تحريم ثمن الكلب ، نسائي: 4668 ، ابو داود: 3479 ، ترمذي: 1279 ، ابن ماجة: 2161 ، احمد: 317/3]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
نهى عن ثمن الكلب والنسور
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے ۔“
[أيضا]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله إذا حرم على قوم أكل شيئ حرم عليهم ثمنه
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کوئی چیز کھانا حرام قرار دے دیتے ہیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2978 ، كتاب البيوع: باب فى ثمن الخمر والميتة ، ابو داود: 3488 ، أحمد: 370/3]
کتا اور بلی اس لیے حرام ہیں کیونکہ یہ درندے ہیں ، مردار کھاتے ہیں اور کتے کو تو شیطان تک کہہ دیا گیا ہے ۔
[حجة البالغه: 181/2 ، الروضة الندية: 390/2]
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ [الأعراف: 157]
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر خبیث أشیاء کو حرام قرار دیتے ہیں ۔“
مذکورہ آیت میں موجود لفظ خبائث سے مراد ایسی خبیث أشیا ہیں جنہیں عرب بغیر عادت یا علت کے خبیث سمجھتے ہوں کیونکہ قرآن ان کی لغت میں نازل ہوا مثلاََ مکھی ، مچھر ، زنبور ، جوں ، پسو ، مینڈک ، چھپکلی ، گرگٹ ، غطایہ (چھپکلی کے مشابہ ایک جانور ، کھٹمل ، جعلان (گبریلا کی ایک قسم) ، سنڈی اور تمام حشرات الارض وغیرہ۔
بالفرض اگر بعض عرب کسی چیز کو خبیث اور بعض اسے اچھا سمجھتے ہوں تو اکثریت کی رائے کے مطابق حکم ہو گا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 2601/4 ، الروضة الندية: 391/2]