سوال
علماء دین سے دریافت کیا گیا ہے کہ:
مشتاق بن ریاض احمد کا نکاح بچپن میں مسمات مختاراں بی بی سے کیا گیا تھا۔ اب جب کہ مختاراں بی بی بالغ ہو گئی ہے، اس نے نکاح قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ:
◄ مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے۔
◄ کیونکہ مشتاق احمد بن ریاض احمد بدعتی اور جواری ہے، لہذا وہ مشرک ہے۔
◄ اور میں ایک مشرک کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی۔
جبکہ ابھی تک مختاراں بی بی کی رخصتی بھی نہیں ہوئی۔ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ نکاح شرعی طور پر ثابت نہیں ہوگا، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
(1) بلوغت کے بعد لڑکی کو اختیار حاصل ہے
اسلامی تعلیمات کے مطابق جب کوئی لڑکی بالغ ہو جاتی ہے تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نکاح کو برقرار رکھے یا اسے رد کر دے۔
(2) مسلمان کا غیر مسلم کے ساتھ نکاح جائز نہیں
اگر شوہر مشرک ہے تو کسی مسلمان عورت کا نکاح اس کے ساتھ جائز نہیں ہوگا۔
حدیث شریف کی دلیل
((عن ابن عباس رضى الله عنه أن جارية بكر أتت النبى صلى الله عليه وسلم فذكرت أن أباها زوجها وهى كارهة فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم.))
سنن ابوداود، كتاب النكاح، باب فی البكر یزوجها أبوها ولا یستأمر، رقم الحديث: ٢٠٩٦
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح ایسی جگہ کر دیا ہے جہاں وہ راضی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو اختیار دے دیا۔
حاصلِ کلام
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ والدین کی رضامندی کے ساتھ ساتھ لڑکی کی رضا بھی ضروری ہے۔ بلوغت کے بعد لڑکی کو یہ حق ہے کہ وہ نکاح کو برقرار رکھے یا اسے مسترد کر دے۔