اگرچہ یہ واقعہ مختصر ہے مگر اس میں بعض خطباء، قصہ گو واعظین نے خوب اپنی خطابت کے جوہر دکھائے ہیں اور مصنفین نے خوب طبع آزمائی کی ہے اور اسے اپنے اپنے اسلوب سے بیان اور نقل کیا ہے۔ ایک خاکہ نگار مصنف نے تو اسے اس انداز سے لکھا ہے کہ گویا یہ سو فیصد حقیقت ہو اور سچا ترین واقعہ ہو، ہم اس کو اس کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں پھر اس پر محدثین کی، محققین کی تحقیق پیش کریں گے۔
لکھتے ہیں : عمواس شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے بستر کا رخ کیا، اپنی پلکیں بند کیں، جلد ہی نیند کی پری نے انہیں آغوش میں لے لیا وہ گہری نیند سو گئے۔ پوری کائنات پر خاموشی طاری تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ پوری کائنات سو گئی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ خراٹے لینے لگے، پھر نیند ہی میں ان کے جسم نے حرکت کی ان کا چہرہ مسرت سے دمکا، ان کے ہونٹوں پر ایک خفیف سا تبسم ابھرا۔ انہوں نے خواب میں نبی حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس زیب تن فرما رکھا ہے، بلال رضی اللہ عنہ لپک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے، سلام عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ بہت خوشی محسوس کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس لبوں کو حرکت ہوئی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کان لگا کر غور سے سننا چاہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شکایتاً فرمایا : بلال ! یہ کتنی سخت دلی ہے، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہمیں ملنے کے لیے آ جاتے۔“ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی تو انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی۔ بلال یہ کتنی سخت دلی ہے، بلال یہ کتنی سخت دلی ہے۔ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کو بہت دکھ اور افسوس ہوا، دل میں گہرا صدمہ محسوس کیا۔ پھر وہ پکار اٹھے، سخت دلی، سنگ دلی، نہیں یا رسول اللہ ! کئی سال گزر گئے اور میں نے آپ کی مسجد کی زیارت نہیں کی۔ میں آپ کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولا۔ میرے ہونٹ آپ کے اسم مبارک کے ورد سے بھی نہیں رکے میری زبان آپ پر درود بھیجنے سے کبھی قاصر نہیں رہی۔ میں ابھی کوچ کرتا ہوں، میں آپ کے شہر کی طرف چلتا ہوں آپ کی مسجد کی زیارت کے لیے۔
حضرت بلال دروازہ کی طرف بڑھے، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ تاریکی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھا تو ستارے نظر آئے جو اپنی مدھم سی روشنی زمین پر بھیج رہے تھے، مگر اس روشنی سے گھمبیر اندھیرے میں کچھ کمی نہیں ہو رہی تھی۔ یہ رات بہت ہی تاریک و سیاه تھی۔ دن نکلنے سے پہلے سفر کے لیے نکلنا ممکن نہ تھا مگر صبح کب ہو گی؟ کیا بلال صبح تک انتظار کر سکیں گے ؟ ان کے سینے میں شوق کی آگ بھڑک رہی تھی وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا، بلال رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں گھوم رہے تھے، وہ دروازے کی طرف جاتے، پھر واپس آتے، پھر انہیں خیال آیا کہ انہوں نے سامان سفر یعنی زادراہ تیار کرنا ہے، اور اب تک اس کا انتظام نہیں کیا۔ اب انہوں نے زادراہ کی تیاری شروع کر دی، تیاری ہو بھی چکی لیکن ابھی تک رات ختم نہیں ہوئی تھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اب رات کی طوالت سے اکتا چکے تھے۔ وہ سوچتے کہ کاش میرے پر ہوتے کہ میں اڑ کر ابھی مدینہ الرسول جا پہنچتا، اپنی محبو ب کی مسجد میں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بیوی کی آنکھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے خاوند گھر میں چل پھر رہے ہیں اور کچھ پریشان معلوم ہوتے ہیں۔ اس نے پوچھا: آپ کو کیا ہوا ہے ؟ میں یثرب جانا چاہتا ہوں۔ مگر کیوں؟
تاکہ میں نبی انور حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت کر سکوں۔
اگر آپ طلوع فجر تک سوئے رہتے توبہتر نہ ہوتا۔
میری آنکھوں سے نیند اڑ چکی ہے۔
آخر کار فخر کے آثار نمایاں ہونے لگے، دور افق میں رو شنی کی کچھ چمک نمودار ہوئی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ تیزی سے گھر سے نکلے، اپنی سواری کی طرف بڑھے، اس پر سوار ہوئے، اسے ڈانٹا تو وہ تیزی سے مدینہ الرسول کی طرف چل پڑی۔ آپ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سواری کو تیز چلنے پر آمادہ کرتے تاکہ آپ اس قافلے سے جا میں جو ایک دن پہلے مدینہ کے لیے روانہ ہوا تھا۔ آپ کی سواری برابر بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ایک لمباسفر کرنے کے بعد آخر کار آپ قافلے سے جا ملے، اس لمبے سفر میں وہ خود کلامی سے دو چار ہے۔ آپ کے دل میں و دماغ اور نفس و ذہن پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی چھائی ہوئی تھی اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عتاب کے بارے میں ہی سوچتے رہے، آخر کار قافلہ مدینہ کے قریب جا پہنچا، مدینہ طیبہ کے مضافات آئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا دل بے تاب ہو کر چلنے لگا۔ آپ نے اپنی سواری کو تیزی سے ہانکا اور قافلے سے علیحدہ ہو گئے، شہر نبوت میں داخل ہوئے تو آپ کا دل، آپ کے سینے میں شدت سے دھڑک رہا تھا، آپ خوف اور امید کے مابین کی کیفیت میں مبتلا تھے، امیدوار اشتیاق مسجدد حبیب میں جلد پہنچنے کا خوف اور ڈر آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں طویل غیر حاضری کے بعد حاضر ہونے کا۔ مسجد نبوی قریب آئی تو حضرت بلال کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، بے قراری بڑھ گئی، ذوق و شوق میں اضافہ ہوا، سواری کو تیز کیا اور آخرکار مسجد نبوی کے دروازے پر پہنچ گئے، سواری کو بٹھایا، نیچے اترے، بڑے ادب و احترام سے آگے بڑھے، دروازہ سے اندر داخل ہوئے، جب قبر مبارک کے سامنے کھڑے ہوئے تو بے قراری بڑھ گئی، آنسو بہنے لگے، شدت جذبات سے رندھی ہور آواز میں «السلام عليك يا رسول الله»۔
آپ کو اپنا گلا بند ہوتا ہوا محسوس ہوا، آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے تھے، آنسو آپ کے رخساروں پر بہہ رہے تھے، خاموشی سے سر جھکا لیا، آپ کی روح، یادوں کے اکاش میں پرواز کرنے لگی، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یاد آئے۔ جنگ دامن، آسانی و دشواری، جنگ و جدال صلح و صفائی اور دکھ سکھ آپ کی شرکت یاد آئی تو یہ سب کچھ سوچ کر آپ کی بے پناہ بے قراری، بے چینی اور بے تابی کو قدرے سکون محسوس ہوا، راحت و اطمینان کا ادراک ہوا، آپ یہیں کھڑے رہے اور وقت گزرتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہو رہا تھا، ان کی روح، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے ساتھ متصل تھی۔ یادوں کا سفر جاری رہا۔ رات شروع ہو چکی تھی۔ اس نے کائنات کو اپنے پردہ سے ڈھانپ لیا تھا، بلال اپنی جگہ کھڑے تھے وہ اپنے اردگرد سے بالکل بے نیاز تھے، اتنے میں ایک آواز آئی : بلال ! بلال ! آپ اپنی اس بے خبری و وارفتگی کی کیفیت سے باہر آئے سر اٹھایا اور جدھر سے آواز آ رہی تھی ادھر متوجہ ہوئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نظر آئے آپ کے غم و اندوہ میں اضافہ ہو گیا، آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ تیزی سے ان دونوں حضرات کی طرف بڑھے، انہیں اپنے سینے سے لگایا، چوما اور کہا: جب بھی میں آپ دونوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ جاتے ہیں۔
تھوڑی دیر خاموش رہے پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ”آپ کب آئے ؟“ جب سورج افق کی طرف جھک رہا تھا تو کاروان، مدینہ میں داخل ہوا تھا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے فوراً یہاں چلا آیا۔
آج رات آپ کہاں قیام فرمائیں گے ؟ مسجد نبوی میں۔
آج رات آپ ہمارے یہاں ٹھہریں گے۔ ہمارے ساتھ تشریف لائیے۔ مزار اقدس سے چلے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے راستے میں مختلف باتیں ہوتی رہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: بلال ! جب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے آپ نے ہمیں اپنی آواز سے محروم کر رکھا ہے، ہماری خواہش ہے کہ کل فجر کی اذان آپ دیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، بلال۔ آپ نے ہمیں اپنی شریں آواز سے محروم کر دیا ہے کیا آپ کل اذان فجر نہیں دیں گے ؟
کیوں نہیں !
سب گھر میں داخل ہو گئے، کسی نے ان کو نہ دیکھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے رات قیام کیا۔ جب تاریکی کے نام سے فجر کے تلوار باہر آئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی طرف چل پڑے۔ مسجد کی چھت پر چڑھے آپ نے فخر و رشک محسوس کیا۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کر رہی تھی آپ کے جسم کو باد صبا کے جھونکے لگے تو آپ تازہ دم ہو گئے۔ آپ نے آواز بلند کی تو مدینہ منورہ کی فضاؤں میں یہ آواز گونجی۔
«الله اكبر الله اكبر . الله اكبر الله اكبر . »
اس آواز سے مدینہ کانپ اٹھا۔ لوگوں نے سمجھا کہ وہ ایک خوبصورت خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ کیا یہ بلال کی آواز ہے ؟ حضرت بلال پکار اٹھے۔
«اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان لا اله الا الله»
لوگ اپنی نیند سے اٹھ بیٹھے ایک دوسرے سے کہنے لگے، یہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں، یقیناً مگر وہ تو شام تھے۔ شام سے کب واپس آئے اور کیوں ؟ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے، وہ مسجد نبوی کی طرف یوں جا رہے تھے جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہو۔ وہ بلال کی آواز کی گرفت میں تھے، حضرت بلال پکارے۔
«اشهد ان محمد رسول الله، اشهد ان محمد رسول الله»
لوگوں نے سر جھکا لیے۔ آواز حق، ان کے دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ عورتیں پردہ سے باہر نکلیں اور مسجد کی طرف بڑھیں۔ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد سعادت یاد آ گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم تازہ ہو گیا، آنسو بہہ پڑے سر جھک گئے، ہر طرف خاموشی تھی، قبرستان کی سی خاموشی۔ اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز بلند ہوئی وہ نماز کے لیے بلا رہے تھے۔
«حي على الصلاة، حي على الصلاة»
مدینہ النبی بیک زبان اس دعوت پر لبیک کہہ رہا تھا۔ لوگوں کی زبانوں پر «لاحول ولا قوة الابالله» کے کلمات تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز پر ابھری۔
«حي على الفلاح، حي على الفلاح»
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان مکمل کی تو لوگ اپنی جگہ پر ساکت و صامت کھڑے تھے، بلال رضی اللہ عنہ چھت سے اتر کر ان میں شامل ہو چکے تھے، مگر لوگ اپنے ارد گرد سے بیگانہ ابھی تک، ان کی آواز کے سحر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پھر لوگ آہستہ آہستہ آپ کے گرد اکٹھے ہونے لگے وہ آپ کو سلام کرتے اور خیر و عافیت دریافت کرتے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ سے بغل گیر ہوئے، پھر نماز کھڑی ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اللہ اکبر کہا: تو سب لوگوں نے اللہ اکبر کہا:، پھر وہ سب اللہ رب العالمین کے حضور محو عبادت ہو گئے۔
تحقیق الحدیث :
اسناده موضوع۔
اس کی سند من گھٹرت ہے۔
یہ ہے وہ داستان جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، اس سے مبتدعین کئی قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی امت کا حال پوشیدہ نہیں آپ محبت کرنے والوں کو مدینہ میں بلاتے ہیں نیز قبر مبارک پر اپنا چہرہ رگڑنا وغیرہ۔ حوالہ جات کے لیے ہیں۔ [شفاء السقام : 52 الصار م المنكني ص 314 سير اعلام النبلاءا/ 357، 358 لسان اميزان 107/1، 108 الفوائد المجموعهص : 40المصنوع فى معرفة الموضوع۔]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : «اسناده —— وهو منكر .» اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لسان المیزان میں کہتے ہیں : « وهى قصه نسه الوضع .» یہ قصہ واضح طور پر من گھٹرت ہے۔
علامہ شوکانی کہتے ہیں : «لا أصل له .» اس کی کوئی اصل نہیں۔
ملا علی قاری نے اس واقعہ پر موضوع کا حکم لگایا ہے۔
حافظ ابن عبدالہا دی کہتے ہیں : یہ اثر غریب و منکر ہے۔ «واسناده مجهول و فيه انقطاع .» اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع ہے۔
اس میں ابراہیم بن محمد مجہول راوی ہے اور اس سے صرف محمد بن فیض نے یہ منکر اثر نقل کیا ہے۔