ولی کے بغیر نکاح کا شرعی حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا عورت دلی کی اجازت کے بغیر از خود اپنا نکاح کر سکتی ہے؟

جواب :

کسی کنواری یا مطلقہ و بیوہ وغیرہ کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں۔ امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب النکاح میں ”باب من قال لا نكاح إلا بولي“ (جنھوں نے یہ کہا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں) کے تحت سورۃ البقرہ (231، 221) اور سورۃ النور (32) کی آیات اور چند احادیث درج کر کے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ پھر اسی کتاب میں ایک اور عنوان کہ ”باب السلطان ولى لقول النبى صلى الله عليه وسلم زوجناكها بما معك من القرآن“ کے تحت حدیث واہبہ سے حاکم وسلطان کی ولایت کا اثبات کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے شارح البخاری میں ”فتح الباری (239/9، ط دار السلام)“ میں لکھا ہے:
”و قد ورد التصريح بأن السلطان ولى فى حديث عائشة المرفوع أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل الحديث فيه والسلطان ولي من ليس له ولي ، أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه وصححه أبو عوانة وابن عزيمة وابن حبان والحاكم “
”ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث میں اس بات کی تصریح آچکی ہے کہ سلطان ولی ہے۔ حدیث ہے : جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے اور اس حدیث میں ہے: ”سلطان و حاکم اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے ذکر کیا ہے، ترمذی نے حسن اور ابو عوانہ، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔“
جب عورت کے اولیاء اس کا نکاح نہ کریں اور عورت نکاح کرنا چاہتی ہو تو ایسی صورت میں سلطان و حاکم ولی ہوتا ہے۔ اسی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے: فإن استجار الأولياء فالسلطان ولي من ليس له ولي ”اگر اولیاء جھگڑے سے کام لیں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ۔“ اس کی شرح میں شارح ترمذی علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ نے رقمطراز ہیں:
لأن الولي إذا امتنع من التزويج فكأنه ليس لها ولي فيكون السلطان وليها وإلا فلا ولاية للسلطان مع وجود الولي (تحفة الأحوذى (237/4) ”اس لیے کہ جب ولی عورت کی شادی میں مانع ہو تو گویا عورت کا کوئی ولی نہیں، لہذا سلطان اس کا ولی ہو جائے گا۔ بصورت دیگر ولی کی موجودگی میں سلطان کی ولایت درست نہیں۔“
ولی کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ عورت کے لیے نیک جذبات رکھتا ہو، رشد و فلاح والا ہو اور جو ولی صورت کے چاہنے کے باوجود اس کی شادی نہ کرے اور دلچسپی ہی نہ لے، وہ ولی ہدایت یافتہ نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأخرجه سفيان فى جامعه ومن طريقه الطبراني فى ”الأوسط“ بإسناد آخر حسن عن ابن عباس بلفظ لا نكاح إلا بولي مرشد أو سلطان
(فتح الباري (240/9)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اتنا ہے بسند حسن سفیان کی جامع اور اس کے طریق سے طبرانی کی اوسط میں حدیث ان لفظوں سے ہے: ”ولی مرشد یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں۔“
یہ حدیث طبرانی اوسط (318/1، ح : 525)، التلخيص الحبير (163/3) (1513) کتاب الام از شافعی (265/5)، السنن الکبری از بیهقی (124/7)، مجمع البحرین (2163/3) اور مجمع الزوائد میں موجود ہے۔ علامہ ایٹمی فرماتے ہیں: ”اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔“
لہذا جو ولی عورت کا جائز و مناسب دینی رشتہ ملنے کے باوجود اس کے نکاح میں دلچسپی نہ لے اور اپنے ہی کاموں میں مگن ہو تو اس کی ولایت معدوم ہے۔ اولیاء میں سے باپ اور بیٹے سب سے زیادہ قریب ہیں، پھر والدین کی طرف سے بھائی، پھر باپ یا ماں کی طرف سے بھائی، پھر ہوتے، دوہتے، پھر بھانجے اور بھتیجے، پھر چچا اور ماموں وغیرہ ہیں۔ (الروضة الندية (29/2) بتحقيق محمد صبحی خلاق)
لہذا سائلہ محترمہ اپنے اولیاء سے رابطہ کرے، اگر قریبی ولی دلچسپی نہ لے تو دور والے سے کرے، جن کی ترتیب اوپر درج کر دی گئی ہے اور اگر ان میں سے کوئی بھی اس کے نکاح میں دلچسپی نہ لے اور نکاح کرنے کو تیار نہ ہو تو ان کی ولایت نہ ہونے کی طرح ہو گی اور سلطان و حاکم ولی ہو گا، اس کے ذریعے سے نکاح ہو جائے گا۔ اگر لڑکی کے اولیاء میں سے کوئی بھی اس کا نکاح کرنے پر تیار ہو جائے تو حاکم کی ولایت کا لعدم تصور ہوگی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے