بغیر ولی اور گواہوں کے نکاح کا شرعی حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال:

ہمارے ہاں ایک آسٹریلوی لڑکی نے اپنی شادی بغیر ولی کے کر لی، نہ حق مہر مقرر کیا گیا اور نہ گواہان موجود تھے۔ نکاح کے موقع پر ایک مسلمان مرد، ایک عیسائی عورت جو لڑکی کی ماں ہے، لڑکی کی عیسائی سہیلیاں اور چند مسلمان سہیلیاں موجود تھیں۔ نکاح کی رجسٹریشن بھی ایک عیسائی عورت نے کی۔ چار سال گزر جانے کے بعد اس لڑکی نے اسلام قبول کر لیا، اللہ تعالیٰ نے اسے دو بیٹے بھی عطا فرمائے۔ اب وہ لڑکی اس نکاح کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا چاہتی ہے۔ اگر یہ نکاح صحیح نہیں ہے تو اس صورتحال میں کیا کرنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ لڑکی انگریزی کے علاوہ کچھ نہیں جانتی تو مسلمان ہونے کے بعد وہ نماز کس طرح پڑھے گی؟

جواب:

سوال میں نکاح کی مذکورہ صورت غیر شرعی ہے، یہ نکاح صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس نکاح میں نہ تو ولی موجود تھا اور نہ شرعی گواہان۔ نکاح میں حق مہر کا تذکرہ نہ کرنا بھی غیر صحیح فعل ہے۔ نکاح میں ولی اور دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ولی اور عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔“
(دار قطني (2220، 221/3، ح 3481)ابن حبان (1075)، سنن بيهقي (111/7))
اس نکاح کو صحیح اور شرعی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس لڑکی کا ولی نکاح رجسٹرار کے پاس جائے اور مذکورہ خاوند سے اس لڑکی کا نکاح عادل گواہوں کی موجودگی میں کرائے، بشرطیکہ لڑکی اس نکاح پر راضی ہو اور اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ اگر اس کا ولی موجود نہ ہو تو عدالت میں شرعی حاکم کی موجودگی میں نکاح کیا جائے۔ جو کچھ پہلے گزر چکا ہے اس میں اس عورت پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوتا ہے۔ ان دونوں کی اولاد شرعی تصور کی جائے گی۔ ان کا نسب ان کے باپ کی طرف منسوب ہوگا اور یہ نسب بالکل صحیح تصور ہوگا بشرطیکہ دونوں صحت نکاح کا اعتقاد رکھتے ہوں۔ گزشتہ چار سالوں میں میاں بیوی کے قائم شدہ تعلقات کو زنا وغیرہ سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہو گا، اس کو شریعت کی اصطلاح میں وطی شبه کہتے ہیں۔
اس لڑکی کی نماز کے بارے میں جو سوال کیا گیا ہے تو اس کے متعلق ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ سورۂ فاتحہ اور نماز کے ضروری اذکار اور دعاؤں کو یاد کرنے کی فوراً کوشش کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے