بغیر وضو قرآن مجید کو چھونا اور پڑھنا کیسا ہے؟ مکمل تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 243

بغیر وضو قرآن مجید ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا حکم

سوال:

کیا بغیر وضو قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر پڑھنا جائز ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے جو مکتوب تحریر فرمایا تھا، اس میں دیگر کئی احکامات کے ساتھ یہ حکم بھی موجود ہے:

"لا يمس القرآن إلا طاهر”
یعنی "قرآن مجید کو صرف طاہر (پاک) شخص ہی چھوئے۔”

حدیث کی سند اور اس پر محدثین کی تحقیق:

امام مالک رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مرسل (یعنی بغیر صحابی کے واسطے کے) روایت کیا ہے۔
◈ جبکہ امام نسائی اور ابن حبان نے اسے موصول (یعنی صحابی کے واسطے سے) نقل کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب بلوغ المرام میں امام نسائی کی روایت کے بارے میں فرمایا:

"انه معلول”
یعنی یہ حدیث علت (خرابی) رکھتی ہے۔

صاحب سبل السلام نے اس کی شرح میں وضاحت کی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو معلول اس وجہ سے قرار دیا کہ اس کی سند میں ایک راوی سلیمان بن داود ہیں، جنہیں انہوں نے سلیمان بن داود الیمانی سمجھا، جو ضعیف اور متروک راوی ہیں۔

وضاحت:

◈ حقیقت میں یہاں سلیمان بن داود خولانی مراد ہیں، جو ثقہ راوی ہیں۔
امام ابو زرعہ، حاتم، عثمان بن سعید اور دیگر جلیل القدر محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔
◈ لہٰذا، یہ علت اس حدیث کی سند پر اثر انداز نہیں ہوتی اور یہ روایت قابل اعتماد قرار پاتی ہے۔

حضرت عمرو بن حزم کو لکھے گئے مکتوب کی حیثیت:

محدثین کا اختلاف:

◈ بعض حفاظ حدیث کے درمیان اس کتاب کی صحت پر اختلاف موجود ہے، مگر محققین محدثین نے اس مکتوب کو معتبر اور قابلِ قبول قرار دیا ہے۔

دلائل:

علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ تحفۃ الاحوذی میں نقل کرتے ہیں:

"قال ابن عبدالبر: أنه أشبه المتواتر لتلقى الناس له بالقبول.”
یعنی: "ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب متواتر کے مشابہ ہے کیونکہ امت نے اس کو قبول کیا ہے۔”

مشہور محدث یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لا اعلم كتابا أصح من هذا الكتاب فإن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والتابعين يرجعون اليه ويدعون رايهم.”
یعنی: "مجھے اس کتاب سے زیادہ صحیح کتاب کا علم نہیں۔ صحابہ کرام اور تابعین بھی اس کی طرف رجوع کرتے اور اپنی رائے چھوڑ دیتے۔”

امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا:

"قد شاهد عمر بن عبدالعزيز وامام عصره لازهرى بالصحيحة بهذا الكتاب.”
یعنی: "حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام زہری نے بھی اس کتاب کی صحت کی گواہی دی ہے۔”

نتیجہ:

یہ تمام اقوال اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ کتاب صحیح اور مستند ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود یہ مکتوب تحریر کروایا، جس میں یہ حکم بھی شامل ہے کہ:

قرآن مجید کو بغیر طہارت ہاتھ نہ لگایا جائے۔

دیگر مؤید احادیث:

1. حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:

طبرانی (الکبیر اور الصغیر) میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"لايمس القرآن إلا طاهر.”
(مجمع الزوائد: 1/276)

ہیثمی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

"ورجاله موثقون.”
یعنی اس کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں۔

2. حدیث حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ:

◈ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"وفدنا على رسول لله صلى الله عليه وسلم… فقال النبى صلى الله عليه وسلم… ولاتمس القرآن إلا وأنت طاهر.”
(مجمع الزوائد: 1/277)

◈ اس روایت کو طبرانی نے الکبیر میں ذکر کیا۔

ہیثمی رحمہ اللہ روایت کی سند کے متعلق لکھتے ہیں:

"وفيه اسمعيل بن رافع ضعفه يحي بن معين والنسائى وقال البخارى……مقارب الحديث.”

اس راوی کے بارے میں محدثین کی آراء:

یحییٰ بن معین اور نسائی نے اسے ضعیف قرار دیا۔
امام بخاری نے فرمایا کہ "مقارب الحدیث” یعنی اس کی روایت زیادہ کمزور نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب) میں لکھتے ہیں:

"ضعيف الحفظ”
یعنی "یہ راوی کمزور حافظہ رکھتا تھا”۔

خلاصہ:

◈ راوی صدوق ہے، شدید مجروح نہیں۔
◈ اگرچہ اس کی حدیث مفرد طور پر ضعیف ہے، لیکن چونکہ پہلے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح السند روایت گزر چکی ہے، لہٰذا یہ حدیث اس کی مئوید (تائید) بن جاتی ہے۔

قرآن مجید شعائر اللہ میں سے ہے:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ‌ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴾
(الحج: 32)
یعنی: "جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے۔”

اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے:

قرآن مجید چونکہ شعائر اللہ میں سے ہے۔
◈ اس کی تعظیم اور احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بغیر طہارت (وضو) کے نہ چھوا جائے۔

نتیجہ:

◈ احادیث نبویہ، صحابہ و تابعین کا طرز عمل، محدثین کا اعتماد، اور قرآن حکیم کی تعلیمات – سب اس بات پر متفق ہیں کہ:

قرآن مجید کو بغیر وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے