بغیر مہر نکاح کے بعد مہرِ مثل طے ہو تو کیا نکاح درست ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

بیٹے سٹے کا نکاح کیا، بعد میں مہر مثل مقرر کر لیا گیا، تو اس سے نکاح صحیح ہو جائے گا؟

جواب:

نکاح شغار (بیٹے سٹے) کا نکاح باطل ہے، منعقد نہیں ہوتا۔ یہ ممنوع ہے۔ اس پر کئی احادیث اور اجماع امت دلالت کناں ہیں۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (م: 676ھ) فرماتے ہیں:
اجمع العلماء على انه منهي عنه
اہل علم کا اجماع ہے کہ نکاح شغار ممنوع ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 9/201)
❀ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ (م: 741ھ) فرماتے ہیں:
نكاح الشغار، وهو باطل اجماعا
نکاح شغار بالا جماع باطل ہے۔ (القوانین الفقیہہ، ص 203)
❀ امام سوید بن غفلہ رحمہ اللہ (م: 80ھ) فرماتے ہیں:
كانوا يكرهون الشغار، والشغار: الرجل يزوج الرجل على ان يزوجه بغير مهر
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نکاح شغار کو حرام سمجھتے تھے، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص (اپنی بیٹی وغیرہ کا) دوسرے سے نکاح کرتا ہے، بشرطیکہ دوسرا بھی (اپنی بیٹی وغیرہ سے) اس کا نکاح کرے، (دونوں میں) مہر ادا نہیں کیا جاتا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 4/380، وسندہ صحیح)
احناف صحیح احادیث اور اجماع امت کی مخالفت میں ادلا بدلی کی شادی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ نکاح کو نکاح کے بدلے میں مہر مثل قرار دیتے ہیں۔
❀ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م: 449ھ) لکھتے ہیں:
کسی اہل علم کے نزدیک شرمگاہ مہر نہیں بن سکتی، مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔
(شرح صحیح البخاری: 8/316)
❀ سید النقباء والمحدثین، امام بخاری رحمہ اللہ (م: 256ھ) فرماتے ہیں:
بعض الناس کا کہنا ہے: اگر حیلہ کر کے نکاح شغار کر لیا جائے، تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور شرط باطل ہو جاتی ہے، یہ لوگ متعہ کے متعلق کہتے ہیں: نکاح متعہ فاسد ہے اور اس کی شرط باطل ہے، جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں: متعہ اور شغار دونوں جائز ہیں، لیکن شرط باطل ہے۔
(صحیح البخاری، تحت الحدیث: 6960)
❀ علامہ سرخسی حنفی رحمہ اللہ (م: 483ھ) لکھتے ہیں:
نکاح شغار کے منعقد ہونے میں ہماری دلیل یہ ہے کہ نکاح شغار کرنے والوں نے دونوں عورتوں کی شرمگاہ کو ہی مہر مقرر کیا ہے، جبکہ شرمگاہیں مہر نہیں بن سکتیں، اس کی صورت یہی ہے کہ جیسے کسی نے نکاح میں شراب یا خنزیر بطور مہر ادا کیا، (تو اس کا مہر بھی باطل ہوگا۔) کیونکہ جب شرمگاہیں مہر بن ہی نہیں سکتیں، تو دونوں میں وٹہ سٹہ نہ ہوا۔ لہذا یہ شرط فاسد ہو جائے گی۔ فاسد شروط سے نکاح باطل نہیں ہوتا۔ (المبسوط: 5/105)
نکاح کے لیے مہر ضروری ہے، جس کی ادائیگی تین طرح ہو سکتی ہے:
➊ مہر کی مقدار طے کر لی جائے اور مقطوع ادا کر دیا جائے۔
➋ مقدار مہر مقرر کر کے مؤجل ادا کیا جائے۔
➌ مہر کی مقدار مقرر نہ کی جائے لیکن مؤجل مہر مثل ادا کر دیا جائے۔
احناف پہلے نکاح بدلے نکاح کو ہی مہر مقرر کرتے ہیں، جو کہ نکاح شغار کی صورت ہے، پھر بعد میں مہر مثل مقرر کر کے نکاح کو صحیح کرنے کا حیلہ کرتے ہیں، گویا نکاح کی ابتدا میں مہر دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، بعد میں نکاح کو صحیح کرنے کے لیے مہر مثل مقرر کیا گیا، یہ حیلہ ہے، جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں، اس پر طرہ یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور محدثین عظام نے اس حیلہ کو اختیار نہیں کیا، بلکہ زوجین میں جدائی کا فیصلہ سنایا جیسا کہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بیان میں گزر چکا ہے۔ اور مہر کے ساتھ تجدید نکاح ضروری ہے۔
❀ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ (م: 1138ھ) لکھتے ہیں:
جمہور کے نزدیک نکاح شغار منعقد ہی نہیں ہوتا، جبکہ ہمارے (یعنی احناف) کے نزدیک یہ شغار رہتا ہی نہیں، بلکہ اس میں مہر مثل ادا کرنا ضروری ہو جائے گا۔ یوں یہ نکاح شغار کی ممانعت سے خارج ہو جائے گا اور یہ بھی نہیں ہوگا کہ اس نکاح میں حق مہر ادا نہیں کیا گیا۔ درست یہی ہے کہ نکاح شغار کی عدم مشروعیت کا تقاضا ہے کہ یہ نکاح باطل ہو، نیز ان میں سے کوئی نکاح بھی منعقد نہیں ہوا۔ لہذا جمہور کا موقف ہی درست ہے، واللہ تعالی اعلم! (حاشیہ السندی علی سنن النسائی: 6/112)
الحاصل:
ہر ایک نکاح کا علیحدہ علیحدہ مہر مقرر ہو، تو بیٹے سٹے کا نکاح جائز ہے، اگر نکاح بدلے نکاح کے مہر مقرر ہو، تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا، خواہ بعد میں مہر مثل ادا بھی کر دیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے