بغیر رضا کے لڑکی کا نکاح اور اسلام کی نظر میں اس کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 443

سوال

اکثر ممالک میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ کسی بالغہ لڑکی کی شادی پانچ چھ سال کے نابالغ لڑکے کے ساتھ کردی جاتی ہے، اور لڑکی سے اس بارے میں کوئی رائے یا اجازت نہیں لی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکی یا تو خودکشی کر بیٹھتی ہے یا چھپ چھپا کر گناہ میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رشتہ داروں کا لڑکی کا نکاح نابالغ لڑکے کے ساتھ اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر کرنا شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ عمل سراسر ظلم اور ناانصافی ہے اور جاہلیت کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا اسلامی شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اسلام سے پہلے عرب کے جاہل لوگ عورتوں پر اس طرح کے ظلم ڈھایا کرتے تھے اور انہی جاہلانہ رسوم کو رواج دیتے تھے۔ عورتوں کو کوئی عزت و احترام حاصل نہ تھا، بلکہ انہیں جانوروں سے بھی کمتر سمجھا جاتا تھا۔ انہیں بولنے تک کی اجازت نہیں تھی، گویا انہیں انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔

اسلام کے آنے کے بعد عورتوں کی حالت میں تدریجی اصلاح ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت دی اور انسانی صف میں ان کا مقام مقرر فرمایا۔ بلکہ انہیں انسانی زندگی کا نصف قرار دیا گیا۔ قرآن حکیم میں اعلان فرمایا گیا:

﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ…… ﴾
(البقرة:٢٢٨)
‘‘یعنی جس طرح ان کے اوپر مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح مردوں پر ان کے حقوق ہیں۔’’

اس آیت مبارکہ نے عورتوں کو بھی مردوں کی طرح ان کے حقوق عطا کیے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے حقوق ادا کرنے اور ان پر ظلم و ناانصافی نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات

نکاح کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات واضح ہیں:

◄ ‘‘ورثاء کی مرضی کے ساتھ ساتھ جس عورت کا نکاح کیا جائے اس کی اجازت اور رضا معلوم کی جائے۔’’

◄ آپ ﷺ نے فرمایا:
‘‘ہر عورت سے اس کی اجازت لینا ضروری ہے۔ چاہے وہ کنواری ہو یا بیوہ۔ بیوہ کو تو زبان سے اپنی رضامندی ظاہر کرنی ہوگی، اور اگر کنواری ہے تو اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت سمجھی جائے گی۔’’

لہٰذا کنواری لڑکی سے بھی لازمی طور پر پوچھا جائے گا۔ اگر وہ انکار کرے تو نکاح ہرگز نہیں ہوگا، چاہے والدین راضی ہوں، نکاح پھر بھی باطل ہوگا۔

ایک واقعہ حدیث سے

ایک عورت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:
‘‘میرے والد نے میرا نکاح ایسے شخص سے کیا ہے جس کے ساتھ نکاح کرنے پر میں راضی نہیں، بلکہ اسے ناپسند کرتی ہوں۔’’

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘اگر تو یہ نکاح برقرار نہیں رکھنا چاہتی تو تو آزاد ہے۔’’

اس پر عورت نے کہا:
‘‘اب جبکہ میرے والد نے نکاح کردیا ہے تو میں اسے برقرار رکھتی ہوں، لیکن میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ عورتوں کو بھی کوئی حق حاصل ہے یا نہیں؟’’

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عورت راضی نہ ہو تو نکاح ہی باطل ہے، خواہ وہ نکاح والد ہی نے کیوں نہ کیا ہو۔

نتیجہ

✿ لڑکی کی رضا کے بغیر نکاح بالکل باطل ہے۔
✿ یہ رواج نہ صرف غلط بلکہ عورت پر شدید ظلم و جبر ہے۔
✿ شریعتِ اسلامیہ ایسے ظالمانہ رواج کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔
✿ یہ جاہلیت کی رسم ہے جس سے مسلمانوں کو سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
✿ ایسے نکاح کے برے نتائج سامنے آئیں گے اور اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے یہ ظلم کیا۔
✿ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا سخت محاسبہ اور مواخذہ ہوگا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے