سوال:
بزرگ کے نام کی نذر و نیاز کا کیا حکم ہے؟
جواب:
نذر و نیاز عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کی جائز ہے۔ مخلوق کے نام پر نذر دینا حرام ہے۔ اگر کوئی انسان کسی بزرگ یا ولی کے نام پر منت یا نذر کرتا ہے، صالحین اور اولیاء اللہ کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے صاحب قبر کا تقرب حاصل ہو جائے گا، وہ اس کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرے گا یا اس کی فریاد رسی یا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرے گا، یا وہ اس کی قبر سے فیض پائے گا تو بلا شک یہ شرک فی العبادة ہے۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ﴾
(الأنعام: 136)
”انہوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپائیوں میں سے اللہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا، پھر بزعم خویش کہنے لگے: یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے دیوتاؤں کے لیے ہے، پھر ان کے دیوتاؤں کا حصہ تو اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، لیکن اللہ کا حصہ ان کے دیوتاؤں کے پاس پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں۔“
❀ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾
(البقرة: 173)
”اور وہ چیز (بھی حرام ہے) جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔“
مزاروں اور آستانوں پر نذر کے نام پر جاہلانہ رسومات اور نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل جس انداز میں ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اس کے باوجود بعض حلقوں سے قبروں پر نذر و نیاز کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔
❀ علامہ حصکفی رحمہ اللہ (1088ھ) اپنے اکثر عوام کی اصلاح میں لکھتے ہیں:
اعلم أن النذر الذى يقع للأموات من أكثر العوام، وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم، فهو بالإجماع باطل وحرام
”معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام جو مردوں کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں اور جو رقوم، چراغ اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر تقرب کی نیت سے لائے جاتے ہیں، وہ بالا جماع باطل اور حرام ہیں۔“
(الدر المختار، ص 155، رد المحتار: 439/2)
❀ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (1252ھ) اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”اولیا کے لیے نذر و نیاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کہے: اے میرے فلاں پیر! اگر میرا غائب رشتہ دار واپس آگیا، میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میرا کام ہو گیا، تو اتنا سونا، اتنی چاندی، اتنا کھانا، چراغ یا اتنا تیل آپ کی نذر کروں گا۔ یہ نذر و نیاز کئی وجوہ سے باطل اور حرام ہے: ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مخلوق کے لیے نذر و نیاز ہے، حالانکہ نذر و نیاز عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ جس کے نام کی نذر و نیاز دی جارہی ہوتی ہے، وہ مردہ ہوتا ہے اور مردہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔ تیسری وجہ یہ کہ نذر و نیاز دینے والا اللہ کو چھوڑ کر یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ ولی امور میں تصرف کر سکتا ہے، اس کا یہ اعتقاد کفر ہے۔“
(رد المحتار المعروف بہ الفتاوى الشامي: 439/2)
❀ علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ (879ھ) لکھتے ہیں:
ما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت وغيرها، وينتقل إلى ضرائح الأولياء تقربا إليهم، محرم بإجماع المسلمين
”جو رقوم، شمعیں اور تیل وغیرہ اولیا کی قبروں پر ان کے تقرب کے لیے لائی جاتی ہیں، ان کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔“
(البحر الرائق لابن نجيم: 298/2، الفتاوى الهندية المعروف بہ فتاوى عالمگیری: 216/1، حاشية الطحطاوي، ص 378)
❀ فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے:
النذر الذى يقع من أكثر العوام بأن يأتى إلى قبر بعض الصلحاء، ويرفع ستره قائلا: يا سيدي فلان! إن قضيت حاجتي فلك مني من الذهب مثلا كذا، باطل إجماعا
”اکثر عوام جو اس طرح نذر مانتے ہیں کہ کسی نیک شخص کی قبر پر آ کر یوں فریاد کرتے ہیں: اے میرے فلاں پیر! اگر تو میری یہ ضرورت پوری کر دے، تو میری طرف سے اتنا سونا تیری نذر۔ یہ بالا جماع باطل ہے۔“
(فتاوی عالمگیری: 216/1)