بریلوی صلوٰۃ و سلام کا حکم: احادیث و ائمہ کی روشنی میں تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 273

سوال

بریلوی حضرات جو صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں، کیا یہ احادیث سے ثابت ہے؟ اور اس کا پڑھنا صحیح ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مؤذنینِ عہدِ نبوی اور صلوٰۃ و سلام کا ذکر

علامہ عزیز زبیدی رحمہ اللہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

زمانۂ رسالت میں تین شہروں میں جو اذانیں ہوتی تھیں، ان میں یہ مؤذن مقرر تھے:
مدینہ منورہ میں: حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ
مکہ مکرمہ میں: حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ
قبا میں: حضرت سعد قرطی رضی اللہ عنہ

یہ سب حضرات آنحضرت ﷺ کے مقرر کردہ صحابہ تھے۔ لیکن ان میں سے کسی سے بھی بریلوی حضرات کے درود شریف کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم حقیقی معنوں میں آپ ﷺ کے محب و جان نثار تھے۔

بریلوی حضرات کا درود

◄ بریلوی حضرات کا وضع کردہ درود، نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے۔
◄ اگر یہ درود واقعی رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے تو آنکھوں پر، ورنہ "خدا حافظ”۔

درود پڑھنا یا گانا؟

◄ بریلوی حضرات یہ درود پڑھتے نہیں بلکہ گاتے ہیں۔
◄ انہوں نے اس درود کے لیے ایسی دھنیں اور تراکیب اختیار کی ہیں جو گانے کے طرز پر موزوں ہیں۔
◄ ہم نبوی درود کو ثواب سمجھتے ہیں، لیکن یہ مروجہ درود کسی طور درست نہیں۔

درود یا فرقہ واریت کا اعلان؟

◄ بریلوی حضرات کا یہ درود دراصل درود نبوی کے تحت نہیں آتا۔
◄ اس کا مقصد زیادہ تر بریلوی عقیدہ و ذہنیت کا اعلان ہے۔
◄ یہ طرز عمل شرعی طور پر بھی نامناسب اور مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔

تاریخی پس منظر

راقم عرض کرتا ہے کہ:
◄ نبی کریم ﷺ کے مبارک عہد سے لے کر خلفائے راشدین، عہدِ معاویہ رضی اللہ عنہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے زمانے تک اس بریلوی صلوٰۃ و سلام کا کوئی وجود نہیں۔
◄ نہ اذان سے پہلے، نہ اذان کے بعد، اور نہ ہی کسی صحابی، تابعی یا امام سے اس طرز کی ترکیب منقول ہے۔
◄ حالانکہ وہ سب ہم سے زیادہ علم و عمل اور محبتِ رسول میں آگے تھے۔

لہٰذا جب کوئی عمل اس عہد میں موجود نہ ہو، باوجود اس کے کہ اس کی ضرورت ہو، تو وہ عمل بدعت شمار ہوتا ہے۔

احادیث سے رہنمائی

صحیح بخاری میں ہے:

عن عائشة رضی اللہ عنھا قالت قال النبی ﷺ:
«مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»
’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: جو شخص ہمارے دین میں ایسی چیز ایجاد کرے جو دین میں سے نہ ہو تو وہ قابل قبول نہیں۔‘‘
(باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فھو مردود، ج1، ص371)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص ہمارے دین میں ایسی چیز داخل کرے جو اس میں سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔”

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک اور حدیث ہے:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
یعنی جس نے ایسا عمل اور کام کیا جو ہمارا معمول نہیں یا جس پر ہماری طرف سے کوئی سند نہیں وہ مردود ہے۔
(صحیح بخاری، ج2، ص1093۔ صحیح مسلم، ج2، ص77)

اور سنن ابی داؤد میں الفاظ ہیں:

«مَنْ صَنَعَ أَمْرًا عَلَى غَيْرِ أَمْرِنَا فَهُوَ رَدٌّ»

اقوالِ ائمہ

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

من البتدع فی الاسلام بدعة ویراھا حسنة فقد زعم أن محمدا صلی اللہ علیه وسلم خان الرسالة لأن اللہ یقول:
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ…
(الاعتصام للشاطبی، ج1، ص27، ج2، ص150)

یعنی:
◄ جو اسلام میں بدعت پیدا کرتا اور اسے اچھا سمجھتا ہے تو وہ گویا رسول اللہ ﷺ پر خیانت کا الزام لگاتا ہے۔
◄ کیونکہ اللہ نے دین کو مکمل فرما دیا ہے۔
◄ جو کام زمانۂ رسالت اور عہد صحابہ میں دین نہ تھا، وہ آج بھی دین نہیں۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
◄ جس عمل کو صحابہ نے عبادت نہیں سمجھا، وہ عبادت نہیں ہو سکتا۔
◄ صحابہ نے آنے والوں کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
◄ پس اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور صحابہ کے طریقے کو اختیار کرو۔

خلاصۂ کلام

◄ اذان سے پہلے یا بعد میں پڑھا جانے والا یہ مروجہ صلوٰۃ و سلام رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام یا مؤذنینِ نبوی سے قطعاً ثابت نہیں۔
◄ لہٰذا یہ بدعت ہے۔
◄ ہاں، اذان کے بعد دعائے وسیلہ کے ساتھ درود ابراہیمی پڑھنا سنت ہے۔

مروجہ صلوٰۃ کی دلیل اور اس کا رد

بریلوی حضرات دلیل دیتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذانِ فجر سے پہلے یہ دعا پڑھتے تھے:

«اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَحْمَدُکَ وَاسْتَعِیْنُکَ عَلیٰ قُرَیْشٍ اَنْ یُّقِعْمُوا دِیْنَکَ ثُم یؤذن»
(ابو داؤد، باب الاذان فوق المنارة، ج1، ص)

یعنی:
"اے اللہ! میں تیری حمد کرتا ہوں اور قریش پر تیری مدد طلب کرتا ہوں تاکہ وہ تیرے دین کو قائم کریں، پھر اذان دیتے۔”

اس روایت پر دو وجوہ سے اعتراض ہے:

سند کی کمزوری:
◈ اس روایت میں احمد بن محمد بن ایوب راوی ہے جو محدثین کے نزدیک جھوٹا (کذاب) اور ناقابلِ اعتماد ہے۔
◈ یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: "وہ محدثین میں شامل نہیں، صرف وراق تھا”۔
◈ ابو احمد حاکم کہتے ہیں: "وہ ثقہ نہیں”۔
◈ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: "وہ کذاب ہے”۔
◈ دوسرا راوی محمد بن اسحاق ہے، جو مدلس ہے اور اس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک سماع کی صراحت نہ ہو۔
◈ لہٰذا یہ روایت ناقابلِ حجت ہے۔

درود کا عدمِ ذکر:
◈ اس روایت میں اذان سے پہلے درود کا ذکر ہی نہیں۔
◈ نہ درودِ ابراہیمی اور نہ ہی بریلوی حضرات کا مروجہ صلوٰۃ و سلام۔
◈ لہٰذا اس روایت سے بریلوی حضرات کا استدلال درست نہیں۔

نتیجہ

مروجہ صلوٰۃ و سلام نہ تو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، نہ خلفائے راشدین سے، نہ صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ مجتہدین سے۔
یہ بدعت ہے اور اس کا شرعی جواز نہیں۔
اذان کے بعد دعائے وسیلہ کے ساتھ درود ابراہیمی پڑھنا سنت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے