سوال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرنے کی ترغیب دیتے تھے:
أَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ.
اے اللہ! میں سخت مصائب، بدبختی، بری تقدیر اور دشمنوں کے طعنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(صحيح البخاري: 6616، صحيح مسلم: 2707)
جن امور کا فیصلہ تقدیر میں پہلے سے ہی ہو چکا ہے، ان سے پناہ مانگنے کا کیا فائدہ؟
جواب:
ان امور سے پناہ مانگنا بھی تقدیر میں لکھا ہے۔ تقدیر اللہ تعالیٰ کا علم سابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہے کہ فلاں بندہ یہ کرے گا، تو اس نے اپنی تقدیر میں لکھ دیا۔ جو شخص مصائب، بدبختی اور بری تقدیر سے پناہ مانگتا ہے، تو یہ پناہ مانگنا اور دعا کرنا بھی اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ پھر ان دعاؤں میں سے جو دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کرنی ہے اور جو دعا مؤخر کرنی ہے، وہ سب کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے۔