بدگمانی کا کیا حکم ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

بدگمانی کا کیا حکم ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

جواب:

کسی کے متعلق بدگمانی رکھنا جائز نہیں، کتاب وسنت میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ مسلمان کے متعلق بدگمانی پالنا کبیرہ گناہ ہے۔ یہ اخلاقی برائی ہے، جو اپنا تزکیہ کرنے میں مانع ثابت ہوتی ہے۔ انسان دوسروں کی غلطیاں ڈھونڈنے میں لگا رہتا ہے اور اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر غور نہیں کر پاتا۔ پھر غیبتیں اور چغلیاں شروع ہو جاتی ہیں، جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾
(الحجرات: 12)
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، کہ بعض گمان گناہ ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخوانا
بدگمانی سے بچیں، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب نہ ڈھونڈیں، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹولیں، حسد نہ کریں، بغض نہ رکھیں اور کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کریں، بلکہ سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہیں۔
(صحيح البخاري: 6064)
تسلیم کہ بدگمانی حرام ہے، مگر انسان کو چاہیے کہ ایسے کاموں سے اجتناب کرے، جو بدگمانی کا باعث بنیں، بالخصوص علمائے کرام کو ایسے امور اور جگہوں سے دور رہنا چاہیے، جو دوسروں کے دل میں بدگمانی پیدا کریں، اس سے ان کا کردار مشکوک ہو جائے گا اور عوام ان سے علمی استفادہ کرنے سے گریزاں رہیں گے، نتیجتاً معاشرے میں برائیاں جنم لیں گی، کیونکہ جن علما نے اصلاح کرنی ہے، ان سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہوتا ہے۔ اگر انسان سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو جائے، جو حقیقت میں گناہ تو نہیں، مگر لوگوں کے لیے بدگمانی کا باعث ہو سکتا ہے، تو ضروری ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے، تاکہ معاملہ صاف ہو جائے۔ بعض کو کہتے سنائی دیا ہے کہ مجھے اپنا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے اپنا دفاع کرنا جائز ہے۔ جن کے اعمال سے لوگ سیکھتے اور انہیں مشعل راہ سمجھتے ہوں، ان کے لیے مستحب ہے کہ ایسے کاموں سے اجتناب کریں، جو درست اور حق ہونے کے باوجود بظاہر خلاف شرع محسوس ہوں، اس سے بہت سی برائیاں جنم لے سکتی ہیں، مثلاً: عام لوگ یہ گمان کرنے لگیں گے کہ یہ ظاہری صورت ہی ہر حال میں جائز و درست ہے، یہی شریعت اور ہمیشہ کے لیے معمول ہے، یا دلوں میں نفرت اور تنقیص پیدا ہوگی، لوگ آپ کو حقیر جانے لگیں، آپس میں اس کی چہ مگوئیاں ہوں، آپ علم حاصل کرنا ترک کر دیں، آپ کی بات کی وقعت ختم ہو جائے گی۔ اگر آپ اسے ظاہر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ لوگ اس کے جواز اور حکم شرعی سے آشنا ہو جائیں، تو وضاحت کر دینی چاہیے کہ یہ کام حرام نہیں اور ایسا میں نے محض آپ کو بتانے کے لیے کیا ہے۔
❀ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إنها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره فى اعتكافه فى المسجد فى العشر الأواخر من رمضان، فتحدثت عنده ساعة، ثم قامت تنقلب، فقام النبى صلى الله عليه وسلم معها يقلبها، حتى إذا بلغت باب المسجد عند باب أم سلمة رضي الله عنها، مر رجلان من الأنصار رضي الله عنهما، فسلما على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهما النبى صلى الله عليه وسلم: على رسلكما، إنما هي صفية بنت حيي رضي الله عنها، فقالا: سبحان الله يا رسول الله، وكبر عليهما، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم، وإني خشيت أن يقذف فى قلوبكما شيئا
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف فرما رہے تھے، میں نے کچھ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں، پھر اٹھ کر واپس ہوئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور واپس چھوڑنے آئے، جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس والے مسجد کے دروازے پر پہنچی، تو وہاں سے دو انصاری رضی اللہ عنہما گزر رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رکیے، یہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہیں، وہ دونوں کہنے لگے: سبحان اللہ! یا رسول اللہ! انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات بہت گراں گزری تھی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان میں ایسے چلتا ہے، جیسے خون چلتا ہے، مجھے خدشہ ہے کہ وہ آپ کے دل میں کوئی بات نہ ڈال دے۔
(صحيح البخاري: 2035، صحیح مسلم: 2175)
❀ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702ھ) فرماتے ہیں:
فيه دليل على التحرز مما يقع فى الوهم نسبة الإنسان إليه، مما لا ينبغي، وقد قال بعض العلماء: إنه لو وقع ببالهما شيء لكفرا، ولكن النبى صلى الله عليه وسلم أراد تعليم أمته، وهذا متأكد فى حق العلماء، ومن يقتدي بهم، فلا يجوز لهم أن يفعلوا فعلا يوجب ظن السوء بهم، وإن كان لهم فيه مخلص؛ لأن ذلك تسبب إلى إبطال الانتفاع بعلمهم
یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسے امور سے اجتناب کرنا چاہیے، جن سے انسان کی طرف کسی نامناسب کام کی نسبت کا وہم ہوتا ہو۔ علما نے فرمایا ہے: اگر ان دو صحابہ رضی اللہ عنہما کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی برا خیال پیدا ہو جاتا، تو وہ کافر ہو جاتے، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو تعلیم دینا چاہتے تھے، علما اور اہل اقتدا کے بارے میں اس کی تاکید اور بھی بڑھ جاتی ہے، لہذا ان کے لیے کوئی ایسا کام کرنا جائز نہیں، جس سے ان کے متعلق بدگمانی پیدا ہو، خواہ وہ اس میں بے گناہ ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ یہ بدگمانی ان کے علم سے فائدہ نہ اٹھانے کا سبب بنے گی۔
(إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام: 45/2)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ه) فرماتے ہیں:
فيه استحباب التحرز من التعرض لسوء ظن الناس فى الإنسان وطلب السلامة والاعتذار بالأعذار الصحيحة وأنه متى فعل ما قد ينكر ظاهره مما هو حق وقد يخفى أن يبين حاله ليدفع ظن السوء
اس حدیث میں دلیل ہے کہ ایسے کام سے اجتناب کرنا مستحب ہے، جس سے لوگوں کے دل میں انسان کے متعلق بدگمانی پیدا ہو، اسی طرح تہمت سے بچاؤ کی راہ تلاش کرنا اور صحیح عذر پیش کرنا مستحب ہے، نیز یہ بھی مستحب ہے کہ جب انسان کوئی ایسا عمل کرے، جو ظاہری طور پر منکر ہو، مگر حق ہو اور دوسروں سے مخفی ہو، تو اس کی حقیقت بیان کر دی جائے، تاکہ اس کے متعلق بدگمانی نہ رکھی جائے۔
(شرح النووي: 156/14)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
فيه التحرز من التعرض لسوء الظن والاحتفاظ من كيد الشيطان والاعتذار
یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسے کام سے اجتناب کیا جائے، جس سے بدگمانی پیدا ہو، شیطان کے مکر سے بچاؤ کیا جائے اور اپنے کام کا جائز عذر پیش کیا جائے۔
(فتح الباري: 280/4)
بدگمانی گناہ ہے، انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ ایک دن رب تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا، کیا اس کے پاس اپنے اعمال کا جواب ہے؟
❀ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702ھ) فرماتے ہیں:
ما تكلمت بكلمة، ولا فعلت فعلا، إلا أعددت لذلك جوابا بين يدي الله تعالى
میں نے جو بھی بات کہی یا جو بھی عمل کیا، اللہ کے حضور اس کی جوابدہی کے لیے تیاری کی ہے۔
(رفع الأصر لابن حجر، ص 394، طبقات الشافعية للسبكي: 212/9، فتح المغيث للسخاوي: 123/1، الرد على القائلين بوحدة الوجود لملا على القاري الحنفي، ص 34)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے