بدعت کی دو اقسام یعنی اچھی بدعت (حسنہ) اور بری بدعت (سئیہ) کا بیان
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب عید میلا النبیﷺ کی شرعی حیثیت سے ماخوذ ہے۔

بدعت کی تقسیم

بدعت کو سيئة (بری) اور حسنة (اچھی) میں تقسیم کرنا درست نہیں، کیونکہ ہر بدعت سيئة (بری) ہے، کوئی بدعت حسنة (اچھی) نہیں۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں:

دلیل نمبر 1:

بدعت کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس کی اصل قرآن، سنت اور اجماع میں نہ ہو، تو جس کی دلیل نہ ہو، وہ حسنہ کیسے بن سکتی ہے؟
❀ علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م: 790ھ) فرماتے ہیں:
إن هذا التقسيم أمر مخترع، لا يدل عليه دليل شرعي، بل هو نفسه متدافع، لأن من حقيقة البدعة أن لا يدل عليها دليل شرعي، لا من نصوص الشرع، ولا من قواعده.
”بدعت کی تقسیم بذات خود اختراع و بدعت ہے، کیونکہ اس تقسیم پر کوئی دلیل شرعی نہیں، بلکہ بدعت کی تعریف ہی اس تقسیم کا رد کرتی ہے۔ بدعت کی تعریف یہ ہے کہ اس پر کوئی شرعی نص یا شرعی قاعدہ دلالت نہ کرے۔“
(الاعتصام: 246/1)

دلیل نمبر 2:

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾
(النحل: 116)
”اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے اپنی صواب دید سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہ دیا کرو۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کامیاب نہیں ہو سکتے۔“
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م: 774ھ) فرماتے ہیں:
يدخل فى هٰذا كل من ابتدع بدعة ليس لها فيها مستند شرعي أو حلل شيئا مما حرم الله أو حرم شيئا مما أباح الله بمجرد رأيه وتشهيه.
”ہر وہ شخص جس نے کسی شرعی ثبوت و دلیل کے بغیر کوئی بدعت جاری کی، وہ اس آیت کا مصداق ہے۔ ایسا انسان محض اپنی رائے اور نفسانی خواہش سے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔“
(تفسیر ابن کثیر: 779/2)
بدعت جاری کرنے کا مطلب اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے، تو کیا اللہ پر باندھا ہوا جھوٹ سئيہ یا حسنہ میں تقسیم ہو سکتا ہے؟

دلیل نمبر 3:

❀ اللہ تعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا:
وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(البقرة: 80)
”وہ کہتے ہیں کہ ہم گنتی کے چند دن آگ میں جلیں گے۔ (اے نبی!) کہہ دیجیے! کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی نہ کرے؟ یا بغیر علم کے اللہ پر جھوٹ بولتے ہو؟“
معلوم ہوا کہ دینی احکام و مسائل میں بغیر دلیل کے بات کرنا اللہ پر بہتان وافترا ہے۔ اسے اللہ پر جھوٹ کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ اور بدعت میں یہی تو ہوتا ہے کہ جس چیز کو اللہ نے دین نہ کہا ہو، اسے دین کہہ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی صورت اللہ پر جھوٹ کو حسنة قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دلیل نمبر 4:

❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ
(النساء: 17)
”اہل کتاب! دین میں غلومت کرو، اور اللہ پر جھوٹ مت باندھو۔“
اس آیت میں ”غلو فی الدین“سے منع کیا گیا ہے، اور بدعت غلو ہی کی ایک صورت ہے، سو ایسے ممنوع کام کو ”حسنة“ نہیں کہا جا سکتا، وہ سئیہ ہی ہے۔

دلیل نمبر 5:

❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة
”بدعت قبیح ترین عمل ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
(صحیح مسلم: 867/43)
❀ علامہ قرطبی رحمہ اللہ (م: 671ھ) فرماتے ہیں:
يريد ما لم يوافق كتابا أو سنة، أو عمل الصحابة رضي الله عنهم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہر وہ عمل ہے، جو کتاب، سنت اور عمل صحابہ کے موافق نہ ہو۔“
(تفسير القرطبي: 87/2)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م: 852ھ) فرماتے ہیں:
المراد بقوله: كل بدعة ضلالة، ما أحدث ولا دليل له من الشرع بطريق خاص ولا عام
”ہر بدعت گمراہی ہے، اس سے مراد ہر وہ نئی چیز ہے، جس کی شریعت میں خاص یا عام کوئی دلیل نہ ہو۔“
(فتح الباري: 254/13)

دلیل نمبر 6:

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أحدث فى أمرنا هٰذا ما ليس منه فهو رد
”جو ہمارے دین میں ایسا کام جاری کرے، جس کی اصل (کتاب، سنت و اجماع میں) نہ ہو، وہ باطل ہے۔“
(صحيح البخاري: 2697، صحیح مسلم: 1718/17)
ترجمہ: جو عمل کتاب، سنت اور اجماع امت سے ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہے اور باطل ہے، اور باطل حسنة نہیں ہو سکتا۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
إن المحافظة علىٰ عموم قول النبى صلى الله عليه وسلم: كل بدعة ضلالة، متعين، وأنه يجب العمل بعمومه، وأن من أخذ يصنف البدع إلىٰ حسن وقبيح، ويجعل ذلك ذريعة إلىٰ أن لا يحتج بالبدعة على النهي فقد أخطأ
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس پر عمل ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اسے اس کے عموم پر رکھا جائے۔ جو لوگ بدعت کو سيئة و حسنة میں تقسیم کرتے ہیں اور اس پر استدلال کرتے ہیں کہ فلاں کام کی ممانعت دین میں نہیں، لہٰذا وہ بدعت حسنة ہے، وہ لوگ واضح خطا پر ہیں۔“
(مجموع الفتاوى: 370/10-371)

دلیل نمبر 7:

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
كل بدعة ضلالة، وإن رآها الناس حسنة
”ہر بدعت گمراہی ہے، خواہ لوگ اسے حسنة کا نام دیں۔“
(السنة للمروزي: 24، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي: 191، وسنده صحيح)

دلیل نمبر 8:

❀ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إياكم وما ابتدع، فإن ما ابتدع ضلالة
”بدعات سے بچو، کیونکہ بدعت گمراہی ہے۔“
(سنن أبي داود: 4611، حلية الأولياء لأبي نعيم: 233/1، وسنده صحيح)
امام حاکم رحمہ اللہ (460/4، 270/3) نے اس قول کو امام مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر بدعت کو ضلالت قرار دے رہے ہیں، لہذا بدعت میں حسن وخوبی نہیں ۔

دلیل نمبر 9:

❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
إياي والبدع فى دين الله
”اللہ کے دین میں بدعات جاری کرنے سے بچیں۔“
(البدع والنهي عنها لمحمد بن وضاح القرطبي: 75، وسنده صحيح)
جلیل القدر صحابی مطلق طور پر بدعات سے منع کر رہے ہیں، لہذا ہر بدعت ممنوع اور بری ہے۔ اگر کچھ بدعات اچھی بھی ہوتیں، تو سیدنا ابن عباس فرماتے کہ بری بدعات جاری کرنے سے بچو اور اچھی بدعات جاری کرتے رہو۔

دلیل نمبر 10:

❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ہر خطبہ میں فرماتے تھے:
كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وشر الأمور محدثاتها
”(دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور بدترین اعمال بدعات ہی ہیں۔“
(البدع والنهي عنها للقرطبي: 61، المعجم الكبير للطبراني: 100/1، وسنده صحيح)
جب ہر بدعت گمراہی ہے، تو گمراہی کو اچھا کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

دلیل نمبر 11:

علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م: 790ھ) فرماتے ہیں:
إجماع السلف الصالح من الصحابة والتابعين من يليهم على ذمها كذلك، وتقبيحها والهروب عنها وعمن اتسم بشيء منها، ولم يقع فى ذلك منهم توقف ولا مثنوية فهو بحسب الإستقراء إجماع ثابت تدل على أن كل بدعة ليست بحق، بل هي من الباطل.
”سلف صالحین، صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کا بدعت اور بدعتی کی مذمت اور انہیں فاسد جانتے ہوئے ان سے دور رہنے پر اجماع ہے، سلف سے اس بارے میں توقف یا اس کی کسی صورت کا استثنا ثابت نہیں، ہماری تحقیق کے مطابق ہر بدعت کو باطل بلکہ ناحق کہنے پر اجماع ہے۔“
(الاعتصام: 141/1)
جن نصوص میں بدعات کی مذمت وارد ہوئی ہے، وہ عام ہیں، ان میں تخصیص اور تقسیم ثابت نہیں۔

دلیل نمبر 12:

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا﴾
(الحديد: 27)
”نصاریٰ نے دین میں رہبانیت کی بدعت نکالی، ہم نے یہ کام ان کے لیے مشروع نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے رضائے الٰہی کی چاہت میں ایسا کیا اور اس کی کماحقہ پابندی بھی نہیں کی۔“
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ دین میں اپنی طرف سے اضافہ بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس فعل فاسد پر مذمت فرمائی ہے۔
❀ عبدالرحمن بن عمر رستہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کی موجودگی میں اہل بدعت اور عبادت میں ان کی جہد کا ذکر ہوا، تو فرمایا:
لا يقبل الله إلا ما كان على الأمر والسنة، ثم قرأ:﴿وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ﴾ فلم يقبل ذلك منهم، ووبخهم عليه، ثم قال: الزم الطريق والسنة.
”اللہ تعالیٰ صرف وہ عمل قبول کرے گا، جو توحید وسنت کے مطابق ہوگا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ﴾ ”انہوں نے رہبانیت کی بدعت نکالی، جو ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔“ اللہ نے ان کا یہ عمل قبول نہیں کیا، بلکہ اس پر انہیں جھاڑ پلائی۔ پھر امام صاحب نے فرمایا: توحید وسنت کو لازم پکڑیں۔“
(حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني: 8/9، وسنده حسن)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے