بدعت حسنہ کی دلیل؟ جو بات مسلمانوں کے نزدیک اچھی ہو۔۔۔
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اہلِ بدعت کی ایک عام دلیل یہ ہے کہ دین میں "بدعتِ حسنہ” بھی موجود ہے اور اس پر وہ بعض آثار و اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور استدلال حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول قول "ما رآه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن…” پر ہے۔

اس مضمون میں اسی شبہہ کا تفصیلی رد پیش کیا جا رہا ہے تاکہ حق واضح ہو جائے اور باطل دلیل اپنی اصل حقیقت میں سامنے آ جائے۔

بریلوی حضرات کی بدعت کے جواز میں پیش کردہ دلیل

اہلِ بدعت کہتے ہیں:

"ما رآه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن، وما رآه المسلمون قبيحًا فهو عند الله قبيح”.
"جو بات مسلمانوں کے نزدیک اچھی ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے، اور جو مسلمانوں کے نزدیک بری ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔”

(روایت احمد وغیرہ)

استدلال: اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مسلمان کسی چیز کو اچھا سمجھ لیں تو وہ دین میں قابلِ قبول ہے، خواہ اس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو۔

اس شبہہ کی تفصیلی وضاحت

➊ یہ اثر مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے

یہ قول نبی کریم ﷺ سے صحیح ثابت نہیں، بلکہ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر ہے۔ لہٰذا اسے حدیثِ نبوی ﷺ کہہ کر دین میں بدعت کے جواز کی دلیل بنانا درست نہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"إن من عجائب الدنيا أن يحتج بعض الناس بهذا الحديث على أن في الدين بدعةً حسنةً، وأن الدليل على حسنها اعتياد المسلمين لها!! … وخفي عليهم أن هذا الحديث موقوف – أي على الصحابي – فلا يجوز أن يحتج به في معارضة النصوص المرفوعة القاطعة في أن كل بدعةٍ ضلالة.”

ترجمہ:
"یہ دنیا کے عجائبات میں سے ہے کہ بعض لوگ اس اثر کو دین میں بدعتِ حسنہ کی دلیل بناتے ہیں، حالانکہ یہ موقوف ہے (یعنی صحابی کا قول ہے، نبی ﷺ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں)، لہٰذا اسے نبی ﷺ کی واضح احادیث کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا جن میں یہ صراحت ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔”

 السلسة الضعيفة رقم 533

➋ معنی کے اعتبار سے یہ استدلال باطل ہے

اگر کوئی اس اثر کو حجت مان بھی لے تو بھی اس سے بدعتِ حسنہ پر دلیل لینا غلط ہے۔ اس کی وجوہات:

(الف)

یہ اثر اس حدیث کے خلاف ہوگا جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:

"ستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلها في النار إلا واحدة.”

"میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک کے۔”

(رواہ الترمذی، حدیث: 2641)

اگر ہر وہ چیز جو مسلمانوں کو اچھی لگے، اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہو تو فرقہ بندی کا تصور ہی باطل ہو جائے گا۔

(ب)

اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جو چیز کچھ لوگوں کے نزدیک اچھی ہو وہ عبادت کے طور پر قبول ہو سکتی ہے، اور جو کسی کے نزدیک بری ہو وہ مردود ہو۔ یہ بات نصوصِ شریعت کے خلاف ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ یہ اثر ان مسائل میں حجت ہے جن میں نصوصِ قرآن و سنت موجود نہ ہوں اور صحابہ کا اجماع ہو۔

➌ اثر کا اصل مفہوم: اجماعِ صحابہ

اس اثر کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے موقع پر کہی تھی۔

ان کا مکمل قول یہ ہے:

"إن الله نظر في قلوب العباد، فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد فابتعثه برسالته، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد، فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد، فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه، فما رآه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن، وما رآه المسلمون سيئًا فهو عند الله سيئ.”

(المستدرک للحاکم، 3/78)

اور ایک روایت میں ہے:

"وقد رأى الصحابة جميعاً أن يستخلفوا أبا بكر.”

ترجمہ:
"اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا، سب سے بہتر دل محمد ﷺ کا پایا، انہیں اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا۔ پھر ان کے بعد سب سے بہتر دل صحابہ کے پائے اور انہیں آپ کے مددگار بنایا۔ چنانچہ جو بات مسلمانوں (یعنی صحابہ) کے نزدیک اچھی ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے، اور جو ان کے نزدیک بری ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔ اور صحابہ نے سب نے اتفاق کیا کہ ابوبکر کو خلیفہ بنایا جائے۔”

یہاں "المسلمون” سے مراد صحابہ کرام ہیں، نہ کہ ہر زمانے کے تمام لوگ۔

➍ اہلِ علم یا معتبر عرف کی مراد

اگر بالفرض اس اثر کو عام مسلمانوں پر بھی محمول کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاملات جن میں شریعت نے کوئی واضح نص نہ دی ہو، ان میں عرفِ عام کو معیار بنایا جائے، جیسا کہ فقہاء کی اصولی قاعدہ ہے:

"العرف محكم”
"عرف کو شرعی اعتبار حاصل ہے۔”

لیکن یہ صرف دنیاوی معاملات میں ہے، عبادات اور دین میں نہیں۔

➎ ابن مسعود رضی اللہ عنہ خود بدعت کے سخت مخالف تھے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا:

"اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم، عليكم بالأمر العتيق.”

"اتباع کرو اور بدعت مت ایجاد کرو، تمہارے لیے کافی ہے، تم پر لازم ہے کہ قدیم دین (سنت) کو لازم پکڑو۔”

التخريج : أخرجه الخرائطي في ((مكارم الأخلاق)) (408)، وابن بطة في ((الإبانة الكبرى)) (174) دون قوله: "وكل بدعة ضلالة”۔۔۔۔إسناده صحيح

تو جس صحابی نے خود بدعت سے سختی سے روکا، اس کے قول کو بدعتِ حسنہ کے جواز پر دلیل بنانا صریح تحریف ہے۔

خلاصہ و نتیجہ

  1. "ما رآه المسلمون حسنًا…” نبی ﷺ کا فرمان نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر ہے۔

  2. اس اثر کا تعلق اجماعِ صحابہ سے ہے، نہ کہ ہر دور کے ہر مسلمان کی رائے سے۔

  3. عبادات اور دین میں کسی نئی بدعت کے جواز پر اس سے استدلال درست نہیں۔

  4. ابن مسعود رضی اللہ عنہ خود بدعت سے سختی سے منع کرتے تھے، لہٰذا ان کا یہ قول بدعت کے جواز کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔

اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ "بدعتِ حسنہ” کے نام پر پیش کی جانے والی یہ دلیل بھی حقیقت میں باطل ہے اور دینِ اسلام کی تکمیل کے عقیدے کے خلاف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے