اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ مکمل دین ہے، جیسا کہ قرآن میں اعلان ہے:
{ٱلۡیوۡم أكۡملۡت لكمۡ دینكمۡ وأتۡممۡت علیۡكمۡ نعۡمتی ورضیت لكم ٱلۡإسۡلـٰم دینࣰا}
(المائدہ: 3)
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کرلیا۔”
جب دین مکمل ہے تو اس میں کسی نئی چیز کی گنجائش نہیں رہتی۔ لیکن بعض لوگ "بدعتِ حسنہ” کے نام پر نئی رسومات اور عبادات ایجاد کرتے ہیں اور اس کی دلیل صحیح مسلم کی مشہور حدیث "مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً” سے لیتے ہیں۔ اس مضمون میں اسی شبہہ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
بدعتی حضرات کی بدعت کے جواز میں پیش کردہ دلیل
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
((مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)).
ترجمہ: "جس نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور ان لوگوں کا بھی اجر ہے جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔ اور جس نے اسلام میں کوئی بُری سنت جاری کی تو اس پر اس کا گناہ ہے اور ان سب کا گناہ ہے جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔”
(رواہ مسلم، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، حدیث: 1017)
اہلِ بدعت کا استدلال: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں نئی چیز (بدعتِ حسنہ) ایجاد کرنا درست ہے کیونکہ نبی ﷺ نے "سنتِ حسنہ” کی تعریف فرمائی ہے۔
مکمل حدیث اور اس کا پس منظر
صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
جاء ناس من الأعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم الصوف، فرأى سوء حالهم قد أصابتهم حاجة، فحث الناس على الصدقة، فأبطؤوا عنه حتى رئي ذلك في وجهه، قال: ثم إن رجلاً من الأنصار جاء بصرة من ورق، ثم جاء آخر، ثم تتابعوا حتى عرف السرور في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من أوزارهم شيء”.
(صحیح مسلم، حدیث: 1017)
ترجمہ:
"کچھ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے اور فقر و محتاجی کی بدترین حالت میں تھے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی مگر وہ کچھ سست ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے چہرہ انور سے ناگواری ظاہر ہونے لگی۔ پھر ایک انصاری ایک تھیلی چاندی (درہم) کی لے آیا، اس کے بعد دوسرا آیا، پھر لوگ ایک کے بعد ایک آنے لگے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چہرے پر خوشی جھلکنے لگی۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: ’جس نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی اور لوگ اس پر عمل کرنے لگے تو اس کے لیے ان سب کا اجر لکھا جائے گا، اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کوئی بُری سنت جاری کی اور لوگ اس پر عمل کرنے لگے تو اس پر ان سب کا گناہ ہوگا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔‘”
تفصیلی وضاحت
➊ موقع و محل کی وضاحت
یہ دعویٰ باطل اور فہم میں خطا ہے، کیونکہ بدعتی حضرات نے حدیث کو اس کے اصل موقع و محل سے کاٹ کر پیش کیا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی:
{فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ} (الماعون: 4)
"ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے۔”
پر رک جائے اور آگے نہ پڑھے:
{ٱلَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ} (الماعون: 5)
"جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔”
اصل واقعہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فقراءِ مُضَر کی تنگدستی دیکھی تو صحابہ کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ ایک انصاری صحابی نے سب سے پہلے صدقہ پیش کیا، پھر دوسرے صحابہ نے ان کی پیروی کی۔
یہاں صحابی نے کوئی "نئی بدعت” ایجاد نہیں کی بلکہ ایک مشروع عمل (صدقہ) کو زندہ کیا جو پہلے سے قرآن و سنت میں موجود تھا مگر لوگوں نے ترک کیا ہوا تھا۔
اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا: "مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً” نہ کہ: "مَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةً حَسَنَةً”۔
-
"سنت” وہ ہے جو کتاب و سنت اور دلیل کے موافق ہو۔
-
"بدعت” وہ ہے جو کتاب و سنت سے ٹکرائے اور شریعت میں نئی چیز ہو۔
➋ بدعت کو حسنہ کہنا نصوص کے خلاف ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ)) (رواہ مسلم)
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
اگر "بدعتِ حسنہ” جائز ہو تو اس کا مطلب نکلے گا کہ "ہر سنت گمراہی ہے”۔ یہ صریح تناقض ہے اور نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔
➌ سنت کے خلاف جانے کا انجام
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي)) (رواہ بخاری و مسلم)
"جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔”
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین میں کسی نئی سنت یا بدعت کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ اصل مقصد نبی ﷺ کی سنت کو زندہ کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔
خلاصہ و نتیجہ
-
حدیث "مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً” کا تعلق نیکی کے کام کے احیاء سے ہے، بدعت کے ایجاد سے نہیں۔
-
"سنت” وہ ہے جو نصوص کے موافق ہو، جبکہ "بدعت” وہ ہے جو دین میں نئی اور خلافِ دلیل چیز ہو۔
-
نبی ﷺ نے فرمایا: "كل بدعة ضلالة” ─ یہ بدعتِ حسنہ کے تصور کو جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔
-
دین مکمل ہے، لہٰذا دین میں اضافہ یا نئی بدعت گھڑنا نصوصِ قطعیہ کے خلاف ہے۔
پس اصل "سنتِ حسنہ” یہی ہے کہ ہم بھولی ہوئی سنت کو زندہ کریں، نیک کام کی ترغیب دیں اور نبی ﷺ کے طریقے پر مضبوطی سے جمے رہیں۔ یہی دین کی حفاظت اور اصلاح کا واحد راستہ ہے۔