بدر کے مقتولین اور سماعِ موتیٰ کا مسئلہ
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

بدر میں قتل ہونے والے چوہدہ مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکار کر فرمایا:
يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله؟ فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا، فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟
اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسalea>رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچ ہوتا دیکھ لیا؟
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
يا رسول الله! ما تكلم من أجساد، لا أرواح لها؟
اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں، جن میں کوئی روح ہی نہیں؟
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده! ما أنتم بأسمع لما أقول منهم
اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں جو کہ رہا ہوں، اس کو آپ ان کفار سے زیادہ نہیں سن رہے۔
(صحیح البخاری: 3976، صحیح مسلم: 2874)
بدر کے مقتولین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کیسے سن لی؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾
(النمل: 80)
اے نبی! یقیناً آپ کسی مردے کو نہیں سنا سکتے۔

جواب:

اصل قانون یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے۔ صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا: اس وقت وہ میری بات سن رہے ہیں۔ اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) نقل کرتے ہیں:
قال المازري: قال بعض الناس: الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكره المازري، وادعى أن هذا خاص فى هؤلاء
علامہ (ابو عبد اللہ محمد بن علی) مازری رحمہ اللہ (536ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری رحمہ اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔
(شرح مسلم: 387/2)
❀ علامہ البانی رحمہ اللہ (1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
نحوه قوله صلى الله عليه وسلم لعمر – حينما سأله عن مناداته لأهل قليب بدر: ما أنتم بأسمع لما أقول منهم، هو خاص أيضا بأهل القليب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی اہل قلیب کے ساتھ خاص ہے۔
(سلسلة الأحادیث الضعیفة: 286/3، ح: 1148)
❀ قتادہ رحمہ اللہ (118ھ) فرماتے ہیں:
أحياهم الله حتى أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تا کہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔
(مسند الإمام أحمد: 459/19، ح: 12417، صحیح البخاری: 3976)
❀ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (449ھ) فرماتے ہیں:
على تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة
قتادہ رحمہ اللہ کے بیان کردہ مفہوم پر فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔
(شرح صحیح البخاری: 358/3)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں تھا۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی، تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے