سوال:
کیا اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے "بحق فلاں”، "بحرمت فلاں”، "بجاہ فلاں”، "طفیل فلاں”، اور "فلاں کی برکت” کہنا جائز ہے؟
الجواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
یہ تمام دعائیں محدث (بدعت) ہیں
یہ تمام دعائیں نئی ایجاد شدہ ہیں، اور سنت کی پیروی کرنے والے کو ان سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ دعا ایک عبادت ہے، اور عبادات توقیف و اتباع (یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر) ہوتی ہیں، خواہشات و بدعات کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جامع دعائیں سکھائی ہیں، ان میں بعض لوگوں کے گھڑے ہوئے الفاظ شامل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
الفاظِ دعا میں تبدیلی پر عذاب کا امکان
کسی شرعی کلمہ کو تبدیل کرنا اور اس کی جگہ من گھڑت الفاظ رکھنا، اللہ کے عذاب کا باعث بن سکتا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہوا جب انہیں کلمہ "حطة” کہنے کا حکم دیا گیا، لیکن انہوں نے اسے بدل کر "حنطة” کہہ دیا۔
📖 ﴿فَأَنزَلنا عَلَى الَّذِينَ ظَلَموا رِجزًا مِنَ السَّماءِ بِما كانوا يَفسُقونَ ﴾
(سورۃ البقرہ: 59)
"آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔ یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے۔”
حدیث میں دعا کے الفاظ تبدیل کرنے کی ممانعت
صحیح بخاری (1/28) میں براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے انہیں سونے کی دعا سکھائی تو انہوں نے یہ الفاظ کہے:
📖 "اللهم امنت بكتابك الذى أنزلت”
"اور تیرے رسول پر جو تُو نے بھیجا۔”
تو براءؓ نے یہ کہنے کی بجائے "وَرسُولِكَ الَّذِي أرسَلتَ” کہہ دیا، جس پر نبی ﷺ نے فرمایا:
📖 "نہیں، بلکہ ‘وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرسَلتَ’ کہو!”
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی الفاظ کو تبدیل کرنا جائز نہیں۔
بحق فلاں، بجاہ فلاں کے ساتھ دعا کرنا بدعت ہے
حنفی فقہاء کی رائے
مشہور حنفی عالم مرغینانی نے الہدایہ (4/475) میں فرمایا:
📖 "کسی شخص کا اپنی دعا میں ‘بحق فلاں’ یا ‘بحق انبیائک و رسلک’ کہنا مکروہ ہے، کیونکہ خالق پر مخلوق کا کوئی حق نہیں۔”
علی القاری فرماتے ہیں:
📖 "امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ کسی کا یہ کہنا ‘میں تجھ سے بحق فلاں مانگتا ہوں’ یا ‘بحق تیرے انبیاء و رسل کے’ یا ‘بحق بیت الحرام’، یا ‘بحق مشعر حرام’ کہنا مکروہ ہے، کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں۔”
(شرح فقہ اکبر، ص 161)
فتاویٰ عالمگیری (4/119) میں بھی یہی فتویٰ دیا گیا ہے۔
علمائے سلف کی رائے
شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن المصری رحمہ اللہ (منہاج التأسيس، ص 155) میں فرماتے ہیں:
📖 "یہ کہنا کہ اے اللہ! بجاہ فلاں، بحرمت فلاں، اور فلاں کی برکت سے میرا یہ کام کر دے، یہ طریقہ صحابہ، تابعین اور سلف صالحین میں کسی سے منقول نہیں۔”
امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (الکافی، ص 22) میں فرماتے ہیں:
📖 "بعض جاہل لوگ فقراء اور مشائخ کی محبت میں دھوکہ کھا جاتے ہیں، اور ان کے مقبروں پر جا کر شفاعت طلب کرتے ہیں، انہیں اللہ کی طرف وسیلہ بناتے ہیں، اور جاہ، حرمت، اور طفیل کے الفاظ کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔”
حدیث "بحق السائلین علیک” کا ضعف
ابن ماجہ کی ایک حدیث (1/256، رقم 778) میں آیا ہے:
📖 "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ وَبِحَقِّ مَمْشَاىَ…”
یہ حدیث دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ:
- سند ضعیف ہے – اس کے راوی فضیل بن مرزوق کو کئی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
- عطیہ راوی ضعیف اور مدلس ہے۔
- حدیث میں اضطراب ہے – کبھی یہ مرفوع آتی ہے، کبھی موقوف۔
(تفصیل: السلسلة الضعيفة (1/34)، رقم: 4، رقم: 22، رقم: 23)
نتیجہ
جائز توسل:
- اللہ کے اسماء و صفات کے وسیلے سے دعا
- اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا
- نیک لوگوں سے دعا کروانا (جب وہ زندہ ہوں)
ناجائز اور بدعتی توسل:
- بحق فلاں، بجاہ فلاں، بحرمت فلاں، طفیل فلاں کہنا
- کسی نبی، ولی، یا مقبرے کو وسیلہ بنانا
📖 تفصیل کے لیے: ابن تیمیہ، فتاویٰ (1/339)، انواع التوسل والوسیلة، شیخ البانی
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب