سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"أَنَا زَعِيمُ بَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا”
"میں جنت کے گردونواح میں اس شخص کے لیے گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو بحث و جدال چھوڑ دے، اگرچہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔”
(سنن ابی داود، کتاب الأدب، باب فی حسن الخلق: 4800، وسندہ حسن)
یہ حدیث پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ میں اپنی کلاس میں اکثر اپنے حنفی ساتھیوں سے بحث و مباحثہ کرتا ہوں اور قرآن و حدیث کے دلائل سے انہیں لاجواب کر دیتا ہوں۔ لیکن جب میں نے یہ حدیث انہیں سنائی تو وہ کہنے لگے کہ یہ حدیث میرے جیسے لوگوں کے لیے ہی ہے، کیونکہ میں بہت زیادہ بحث کرتا ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص شرک و بدعت کی تبلیغ کرتا ہے تو کیا ہمیں اس پر حق واضح نہیں کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کچھ نہ کچھ بحث تو ہوگی، کیونکہ وہ فوراً مطمئن نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے:
"وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ”
(النحل: 125)
"اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجیے۔”
لہٰذا، اگر کوئی شخص قرآن و حدیث کو توڑ مروڑ کر پیش کرے اور شرک و بدعت کے حق میں اپنی من مانی تاویلات کرے، تو کیا ہمیں دلائل کے ذریعے اس سے بحث نہیں کرنی چاہیے؟ اسی طرح، علمائے کرام کے درمیان اختلافی مسائل پر ہونے والی بحثیں کس دائرہ کار میں آتی ہیں؟ براہ کرم اس مسئلے کو وضاحت سے بیان کریں۔
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول اللہ، أما بعد!
"مراء” کا مفہوم
لفظ "المراء” لغوی طور پر جھگڑے، کٹ حجتی اور بحث کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
(القاموس الوحید، ص 1546)
علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ (متوفی 606ھ) فرماتے ہیں:
"المراء: الجدال. والتماري والمماراة: المجادلة على مذهب الشكِّ والريبة”
"مراء کا مطلب جھگڑا ہے، اور تماری و مماراۃ کا مفہوم یہ ہے کہ شک و شبہ کی بنیاد پر جھگڑا کیا جائے۔”
(النہایہ فی غریب الحدیث، ج4، ص 322)
اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں احکام اور اختلافی مسائل پر دعوت و تحقیق کے لیے ہونے والے علمی بحث و مباحثہ کو مراد نہیں لیا گیا، بلکہ اس سے مراد ایسا جھگڑا ہے جو بلاوجہ یا شک و شبہ کی بنیاد پر کیا جائے۔
علامہ ابن الاثیر مزید لکھتے ہیں:
"اور کہا گیا ہے کہ اس حدیث (لاتماروا في القرآن) سے مراد وہ جھگڑا ہے جو تقدیر وغیرہ جیسے مسائل پر اہلِ کلام اور اہلِ بدعت کی طرح کیا جائے۔ اس میں احکام اور حلال و حرام سے متعلق مباحث شامل نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو صحابہ کرام اور بعد کے علماء کے درمیان ہوتے رہے ہیں، اور ان کا مقصد محض غالب آنا یا عاجز کرنا نہیں، بلکہ حق کو واضح کرنا اور اس کی پیروی کرنا تھا۔”
(النہایہ، ج4، ص 322)
جائز مناظرے کا جواز
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ”
(النحل: 125)
"اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجیے۔”
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مناظرہ اور بحث جائز ہے، بشرطیکہ وہ اچھے انداز میں کی جائے اور اس کا مقصد حق واضح کرنا ہو، نہ کہ محض کسی کو نیچا دکھانا۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً…..”
"مجھ سے (دین لے کر) لوگوں تک پہنچا دو، چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔”
(صحیح البخاری: 3461)
یہ حدیث بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ دین کی دعوت دینا اور حق کو واضح کرنا ضروری ہے۔
بحث و مباحثہ کے قرآنی و حدیثی شواہد
◈ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مناظرہ
(سورۃ البقرۃ: 258)
◈ نجران کے عیسائیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مباحثہ
(مستدرک الحاکم، 2/593، 594، ح 4157)
◈ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا فقہی مباحثہ
(صحیح بخاری: 345، 346)
◈ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا خوارج سے مناظرہ
(السنن الکبریٰ للبیہقی، 8/179، وسندہ حسن)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"فكل من لم يناظر أهل الإلحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم لم يكن أعطى الإسلام حقه…”
"جو شخص ملحدین اور اہلِ بدعت سے ایسا مناظرہ نہ کرے جو ان کی جڑ کاٹ دے، تو اس نے اسلام کا حق ادا نہیں کیا، نہ ہی علم و ایمان کا تقاضا پورا کیا، اور نہ ہی اس کے کلام سے دلوں کو اطمینان اور شفاء حاصل ہوگی، اور نہ ہی اس کا کلام علم و یقین کا فائدہ دے گا۔”
(درء تعارض العقل والنقل، ج1، ص 357)
نتیجہ
مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ علمی بحث اور مناظرہ جائز بلکہ ضروری ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد حق کی وضاحت ہو، نہ کہ محض جیتنا یا دوسرے کو نیچا دکھانا۔
حدیث "أنا زعيم ببيت في ربض الجنة…” میں جس بحث سے منع کیا گیا ہے، وہ غیر ضروری جھگڑے، ضد اور ہٹ دھرمی والی بحث ہے، جبکہ حق و باطل کے درمیان علمی دلائل کی روشنی میں ہونے والا مناظرہ ایک شرعی ضرورت ہے، جو قرآن، حدیث اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔
لہٰذا، اگر کوئی شخص شرک و بدعت کی تائید میں دلائل پیش کرے، تو اس پر کتاب و سنت کے واضح دلائل کے ذریعے حجت قائم کرنا دین کی خدمت ہے۔ البتہ، بحث و مناظرہ ہمیشہ حکمت، نرمی اور اچھے اخلاق کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ دوسرا شخص حق کی طرف مائل ہو سکے۔
واللہ أعلم بالصواب