بالغ مرد کو رضاعت کے ذریعے محرم بنانا جائز ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کسی بڑی عمر کے لڑکے کو دودھ پلانا جائز ہے خواہ وہ داڑھی والا ہی کیوں نہ ہوتا کہ کسی عورت کے لیے اسے دیکھنا جائز ہو جائے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا آئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! سالم ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ آزاد کردہ غلام ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے وہ مرد کی حد بلوغت کو پہنچ گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ارضعيت تحرمي عليه
”اسے اپنا دودھ پلا دے تو اس پر حرام ہو جائے گی ۔“
سنن ابی داود کی روایت میں یہ ہے کہ ”اس حکم کے بعد سہلہ رضی اللہ عنہا نے سالم کو پانچ مرتبہ دودھ پلا دیا پھر وہ اس کے بچے کی جگہ ہو گیا۔“
[مسلم: 1453 ، كتاب الرضاع: باب رضاعة الكبير ، احمد: 38/6 ، حميدي: 287 ، ابن ماجة: 1943 ، نسائی: 104/6 ، بخاري: 5088 ، بيهقي: 459/7 ، صحيح ابو داود: 1815 ، ابو داود: 2061 ، كتاب النكاح: باد فيمن حرم به]
معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت بڑی عمر کے لڑکے کو بھی دودھ پلا دیا جائے تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشه رضی اللہ عنہا ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، امام عطاءؒ ، امام لیثؒ ، امام داودؒ اور امام ابن حزمؒ اس کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار: 417/4 ، شرح مسلم: 289/5 ، الاستندكار لابن عبدالبر: 273/18 ، المحلى بالآثار: 202/10]
(جمہور ) صرف دو سال سے کم عمر میں پلائے گئے دودھ سے ہی حرمت ثابت ہوگی۔ (انہوں نے ان تمام دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں صرف دو سال سے پہلے دودھ پلانے سے حرمت کا ذکر ہے )۔
جمہور علما نے مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر اس مؤقف کو ترجیح دی ہے۔
➊ اس معنی کی احادیث کثرت سے ہیں جبکہ بڑے لڑکے کو دودھ پلانے کے متعلق صرف ایک حدیث سالم ہی ہے۔
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام ازواج مطہرات بھی اسی کی قائل تھیں۔
➌ اس میں زیادہ احتیاط کا پہلو ہے۔
➍ بڑے آدمی کو دودھ پلانے سے نہ تو گوشت اگتا ہے ، نہ ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور نہ ہی اس سے جسم کا کوئی حصہ بنتا ہے۔ حالانکہ یہی حرمت کے وہ اسباب ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں:
ممکن ہے یہ معاملہ صرف سالم کے ساتھ ہی خاص ہو۔ کیونکہ یہ چیز صرف اسی کے قصہ میں موجود ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
إنما الرضاعة من المجاعة
”رضاعت اس وقت معتبر ہے جب بھوک کے وقت دودھ پیا جائے ۔“
[أعلام الموقعين: 346/4]
ان تمام وجوہات کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے اثبات کے لیے ایک صحیح حدیث ہی کافی ہے۔ اگرچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام ازواج مطہرات اس کے خلاف تھیں لیکن محض ان کا اپنا فہم تھا کہ جو صریح حدیث کے مقابلے میں نہیں۔ کسی ایک کام کا احوط ہونا دوسرے کے عدم جواز کا ثبوت نہیں۔ لامحالہ اس سے گوشت نہیں اُگتا اور ہڈیاں بھی مضبوط نہیں ہوتی لیکن اس بات کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تھا اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہلہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دے دی۔ سالم کے ساتھ اس معاملے کے خاص ہونے کا دعوی دلیل کا محتاج ہے۔ نیز نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ”رضاعت صرف بھوک سے ہے۔“ اگرچہ بظاہر بڑے بچے کو دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہ ہونے کا ثبوت ہے لیکن سہلہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے اس کا جواز نکل آتا ہے۔
(راجح) راجح موقف وہ ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اختیار کیا ہے۔
(ابن تیمیہؒ) مسئلہ رضاعت میں بچپن کا اعتبار کیا جائے گا الا کہ کوئی حاجت و ضرورت پیش آ جائے جیسا کہ بڑی عمر کے آدمی کی ضاعت کا مسئلہ ہے کہ جسے کسی عورت کے پاس جانا بھی ضروری ہو اور اس عورت کا اس سے پردہ کرنا بھی دشوار ہو جیسا کہ کا ابو حذیفہ کی بیوی کے ساتھ معاملہ تھا۔ اس طرح کے بڑی عمر کے آدمی کو اگر عورت نے دودھ پلا دیا تو اس آدمی کے لیے دودھ پینا قابل تاثیر ہو گا۔ نیز ایسی صورت کے علاوہ دودھ پینے کی مدت بچپن کی عمر ہی ہے۔
[مجموع الفتاوى: 60/34]
(ابن قیمؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أعلام الموقعين: 346/4]
(امیرصنعانیؒ ) انہوں نے اس تطبیق کو بہترین قرار دیا ہے۔
[سبل السلام: 1533/3]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کو برحق گردانتے ہیں ۔
[الرزضة الندية: 180/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے