بالغ اولاد کی شادی کے حوالے سے والدین کی ذمہ داری
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : میں نے ایک دینی مجلہ میں پڑھا ہے کہ اگر اولاد بالغ ہو جائے تو والدین کو چاہیے کہ جلد از جلد اولاد کی شادی کر دیں تاکہ فحاشی نہ پھیلے اگر والدین ایسا نہیں کریں گے تو اس قسم کی فحاشی کا گناہ ماں باپ کے ذمہ ہوگا۔ براہ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
جواب : یہ بات صحیح اور درست ہے کہ جب اولاد بالغ ہو جائے تو والدین کو ان کی شادی کا جلد بندوبست کرنا چاہیے تا کہ وہ کسی قسم کے گناہ میں ملوث نہ ہوں۔
ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اسے ادب سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے، اگر وہ بالغ ہو گیا، اس نے اس کی شادی نہ کی اور اس نے گناہ کر لیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔“ [شعب الايمان للبيهقي8666]
عمر بن خطاب اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تورات میں لکھا ہوا ہے کہ جس کی بیٹی بارہ برس کی ہو گئی اور اس نے اس کی شادی نہ کی اور لڑکی نے گناہ کا ارتکاب کر لیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔“ [شعب الايمان8680]
پہلی روایت کو علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ (63/2) میں ضعیف قرار دیا ہے اور عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کی سند میں ابوبکر بن ابی مریم راوی ضعیف ہے اور انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے متن کو امام حاکم رحمہ اللہ نے شاذ قرار دیا ہے۔ [شعب الايمان : 403/6]
بہرکیف باپ اگر نکاح کر دینے پر قادر ہو اور نکاح نہ کرے تو قصور وار ہے اور گناہ کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے زجر و تہدید کرتے ہوئے اس بات سے ڈرایا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی بالغ اولاد کا مناسب رشتہ ملتے ہی نکاح کر دینا چاہیے تا کہ وہ کسی گناہ کا ارتکا ب نہ کر لیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: