باطل نظریات کا علمی رد: عقائد پر ایک جائزہ
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

معرکہ حق و باطل: بریلوی عقائد کا تجزیہ

اس ماہنامے کا بنیادی مقصد باطل نظریات کا علمی رد کرنا ہے۔ اس کے تحت "معرکہ حق و باطل” کے نام سے قسط وار ایک سلسلہ جاری ہے۔ آج کے مضمون میں کچھ ایسے عقائد کا جائزہ لیا گیا ہے جنہیں بریلوی حضرات اپنے نظریات کی بنیاد بناتے ہیں۔ ذیل میں ان عقائد کا تجزیہ اور ان پر اعتراضات پیش کیے گئے ہیں:

عقیدہ 1: "حضرت عمر لوگوں کو دوزخ میں گرنے سے روکتے تھے”

احمد رضا خان بریلوی نے ایک روایت کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ حضرت عمرؓ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے روکتے تھے۔

روایت کا تجزیہ:

◄ سند ضعیف ہے: اس روایت کا راوی سعد الجاری غیر معروف اور غیر معتبر ہے، اور اس کی توثیق ثابت نہیں ہوئی۔
◄ بریلوی موقف کی کمزوری: حضرت عمرؓ اپنی حیات میں دین کی تبلیغ کرتے تھے، اور ان کی دعوت سے متاثر ہو کر لوگ جہنم سے بچتے تھے، لیکن یہ کہنا کہ حضرت عمرؓ کی ذات سے تمام لوگ جہنم سے بچ گئے، مبالغہ ہے۔
◄ علم غیب کی نفی: اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو خود کعب احبار کی بات کا صحیح مطلب معلوم نہ تھا، جس سے علم غیب کا دعویٰ کمزور ہوتا ہے۔

عقیدہ 2: "فاروقِ اعظم زمین کے مالک ہیں”

احمد رضا خان بریلوی نے ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ زمین کی ملکیت ہمارے پاس ہے۔

روایت کا تجزیہ:

◄ سند ضعیف اور منقطع ہے: محمد بن سیرین کی حضرت عمرؓ سے ملاقات ہی ثابت نہیں، یوں یہ روایت منقطع قرار پاتی ہے۔
◄ غلط مفہوم نکالنا: اس روایت سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے حکمران زمین کا انتظام کرتے ہیں، نہ کہ حضرت عمرؓ نے ذاتی ملکیت کا دعویٰ کیا ہو۔

عقیدہ 3: "غیر اللہ سے استعانت شرک نہیں”

احمد رضا خان نے سیدنا عثمانؓ کی مدد سے متعلق ایک روایت کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک نہیں۔

روایت کا تجزیہ:

◄ سند ضعیف ہے: امام ابن عدی نے اس روایت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے، جبکہ حافظ ذہبی نے اسے "منکر” قرار دیا۔
◄ خلاصہ: غیر اللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا شرک ہے، جبکہ اسباب کے تحت مدد طلب کرنا جائز ہے، جیسا کہ نبی اکرمؐ نے سیدنا عثمانؓ سے مالی مدد طلب کی۔

عقیدہ 4: "غیر اللہ کی پناہ مانگنا جائز ہے”

ایک بے سند روایت کی بنیاد پر کہا گیا کہ حضرت عمرؓ کی پناہ مانگنا جائز ہے۔

تبصرہ:

◄ پناہ کا جائز اور ناجائز فرق: زندہ انسان سے اسباب کے تحت مدد طلب کرنا جائز ہے، جبکہ وفات کے بعد یا ما فوق الاسباب مدد مانگنا شرک ہے۔

عقیدہ 5: "سیدنا علیؓ کا دعویٔ مشکل کشائی”

بریلوی حضرات نے ایک روایت کا حوالہ دے کر سیدنا علیؓ سے مشکل کشائی کا دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

روایت کا تجزیہ:

◄ سند ضعیف ہے: روایت بیان کرنے والے راوی جھوٹے اور غیر معتبر ہیں۔
◄ مفہوم کی وضاحت: سیدنا علیؓ اپنی زندگی میں اسباب کے تحت مدد کرتے تھے، لیکن وفات کے بعد ان سے مدد طلب کرنا ثابت نہیں۔

نتیجہ

بریلوی حضرات کے یہ عقائد کمزور سندوں اور منقطع روایات پر مبنی ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں غیر اللہ سے ما فوق الاسباب مدد طلب کرنا شرک ہے، جبکہ اسباب کے تحت زندہ افراد سے مدد طلب کرنا جائز ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین سے ایسی مدد کی کوئی مثال نہیں ملتی جو ما فوق الاسباب ہو۔

حوالہ جات:

الطبقات الکبرٰی لابن سعد، 332/3
شرح معانی الآثار للطحاوی، 218/3
صحیح مسلم: 2038
کنز العمال للمتقی الہندی: 36189
الأمن والعلٰی، ص: 218-222

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!