باس کو تحفے کے نام پر قیمتی اشیا دینا
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

جہاں آدمی کام کرتا ہے وہاں کے سربراہ کو تحفے کے نام پر قیمتی اشیا دینے والے کا حکم
یہ غلط اور بہت زیادہ شر کا ذریعہ ہے۔ سربراہ کو چاہیے کہ تحائف قبول نہ کرے، کیونکہ یہ خیانت اور حق پوشی کے لیے رشوت اور وسیلہ بن سکتے ہیں، لیکن اگر اپنی ذات کے لیے نہیں، البتہ کام کی مصلحت کے لیے قبول کرے اور تحفہ دینے والے سے کہے کہ یہ کام کے مفاد میں ہے، میں اپنے لیے نہیں لے رہا تو پھر کوئی مضائقہ نہیں، مگر احتیاط اسی میں ہے کہ اسے رد کر دے اور نہ اپنے لیے قبول کرے نہ کام ہی کے لیے۔ کیونکہ یہ اسے اپنے لیے رکھنے پر اکسا سکتا ہے اور اس کے متعلق بدگمانی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تحفہ دینے والا اس کی وجہ سے بے باک ہو جائے اور وہ اپنے معاملے کو دوسرے لوگوں کے معاملے کی نسبت بہتر انداز میں دیکھ سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک آدمی کو زکا ت اکٹھی کرنے کے لیے بھیجا اور اس نے کہا: یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہ کام سخت نا پسند فرمایا، اور لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تم میں سے کسی کو کیا ہو گیا ہے؟ ہم اس کو اللہ کے کسی حکم پر عامل بناتے ہیں تو وہ کہتا ہے: یہ تمھارا ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے، وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھ جاتا، پھر دیکھتے اس کو تحفہ ملتا ہے کہ نہیں؟“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2597]
یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہر سرکاری ملازم کا یہ فرض ہے کہ اپنی ذمے داری نبھائے اور اپنے کام کے متعلق کوئی بھی تحفہ قبول نہ کرے، اگر اسے قبول کرے تو بیت المال میں جمع کروا دے۔ اس میں حدیث کی بنا پر اس کے لیے اسے اپنے لیے لینا جائز نہیں، کیونکہ یہ شر اور امانت میں خیانت کا ذریعہ ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 65/20]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1