بارش یا دیگر عذر کی حالت میں دو نمازیں جمع کرنا: کیا کتاب و سنت سے ثابت ہے؟
سوال:
بارش جیسی حالت میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا (یعنی ایک وقت میں دو نمازیں ادا کرنا) کتاب و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے صحیح مسلم اور ترمذی کی وہ حدیث پیش نہ کی جائے جس میں بلاعذر دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے، کیونکہ امام ترمذیؒ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگرچہ اس کی سند صحیح ہے، لیکن اہل علم کا تعامل نہ ہونا اس کو کمزور کرتا ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے صحیح مسلم اور ترمذی کی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں بظاہر بلاعذر جمع کرنے کی بات کی گئی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں "بلاعذر” کا لفظ نہیں آیا بلکہ:
«غَيْرَ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ»
اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: «غَيْرَ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ»
یعنی: نہ خوف کی حالت تھی، نہ بارش کی، اور نہ سفر کی۔
اس بات کو دو پہلوؤں سے سمجھا جا سکتا ہے:
➊ پہلا پہلو:
رسول اللہ ﷺ نے ایسی حالت میں نمازیں جمع کیں جب نہ خوف تھا، نہ بارش، نہ سفر۔
اس سے بظاہر یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے "بلاعذر” نمازیں جمع کیں، لیکن درحقیقت حدیث میں "بلاعذر” کا لفظ موجود نہیں ہے۔
اسی غلط فہمی کی بنیاد پر امام ترمذیؒ نے فرمایا کہ اس حدیث پر علماء کا عمل نہیں، یعنی یہ منسوخ معلوم ہوتی ہے۔
➋ دوسرا پہلو:
جب حدیث میں صرف تین عذر (خوف، بارش، سفر) کی نفی کی گئی ہے تو اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تینوں عذر شرعی طور پر معتبر ہیں، ورنہ ان کی نفی کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
امام ترمذیؒ کی تشریح:
امام ترمذیؒ نے حدیث کے تحت یہ تصریح کی ہے کہ:
اگر یہ حدیث یوں سمجھی جائے کہ صرف ان تین اعذار (خوف، بارش، سفر) کی نفی ہوئی ہے، تو ممکن ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور عذر ہو جیسے بیماری وغیرہ، تو ایسی صورت میں یہ حدیث متروک العمل نہیں ہوگی۔
کیونکہ بیماری کی حالت میں نمازیں جمع کرنے کے قائل بعض تابعین اور امام اسحٰقؒ بھی ہیں۔
مزید وضاحت:
◈ امام ترمذیؒ نے اسی حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اگر اس حدیث کا مطلب یہ لیا جائے کہ یہ تین اعذار کے علاوہ کی نفی ہے، تو پھر دیگر اعذار جیسے بیماری کو تسلیم کرتے ہوئے حدیث پر عمل ممکن ہے۔
◈ اس صورت میں حدیث کو "متروک العمل” نہیں کہا جائے گا۔
ضعیف روایت کا ذکر:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:
«من جمع بين الصلوتين من غير عذر فقد أتى بابًا من أبواب الكبائر»
(جو بغیر عذر کے نمازوں کو جمع کرے، اس نے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کا دروازہ کھول دیا)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، مگر عمل کی بنا پر اس کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ کیونکہ سلف میں سے کوئی بھی بلاعذر جمع کے قائل نہیں، اگر کوئی قائل ہوتا تو امام ترمذیؒ اس حدیث کو متروک العمل نہ کہتے۔
امام ترمذیؒ کی رائے:
امام ترمذیؒ اس حدیث کے تحت مزید فرماتے ہیں:
«قال بعض أهل العلم يُجمَع بين الصلواتين في المطر، وبه يقول الشافعي وأحمد وإسحٰق، ولم ير الشافعي للمريض أن يجمع بين الصلاتين»
(ترمذی، باب ما جاء في الجمع بين الصلاتين)
یعنی:
بارش کے وقت بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں، اور امام شافعیؒ، امام احمدؒ، اور امام اسحٰقؒ اس کے قائل ہیں۔
البتہ امام شافعیؒ مریض کے لیے جمع کی اجازت نہیں دیتے۔
بارش کے وقت نماز جمع کرنے کے دلائل:
بارش کے وقت جمع کرنے کی تائید کئی احادیث اور اقوال سے ہوتی ہے۔
حوالہ: نیل الأوطار
«ولمالك في الموطأ عن نافع أن ابن عمر إذا جمع الأمراء بين المغرب والعشاء في المطر جمع معهم»
«وللأثرم في سننه عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه قال: من السنة إذا كان مطر أن يجمع بين المغرب والعشاء»
(نیل الأوطار، جلد سوم، صفحہ 93)
یعنی:
◈ امام مالکؒ کی موطا میں نافعؒ سے روایت ہے کہ جب بارش کے وقت امراء مغرب اور عشاء کو جمع کرتے، تو ابن عمرؓ بھی ان کے ساتھ جمع کرتے تھے۔
◈ اور امام اثرم کی سنن میں ہے کہ ابی سلمہ بن عبدالرحمنؒ کہتے ہیں: بارش کی حالت میں مغرب اور عشاء کو جمع کرنا سنت ہے۔
بیماری کی حالت میں نماز جمع کرنے کی ترجیح:
ترجیح اسی قول کو حاصل ہے کہ بیماری کی حالت میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔
نتیجہ:
◈ حدیث میں "بلاعذر” کا لفظ صراحتاً موجود نہیں، بلکہ تین مخصوص اعذار کی نفی ہے۔
◈ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تین اعذار (خوف، بارش، سفر) کا شرعی اعتبار ہے۔
◈ اگر دیگر اعذار (جیسے بیماری) کو بھی شامل کیا جائے تو حدیث پر عمل ممکن ہے۔
◈ بارش کی حالت میں نمازیں جمع کرنے کے متعلق کبار صحابہ و تابعین اور ائمہ کا قول موجود ہے۔