باجماعت نماز کے لیئے مقتدی کب کھڑے ہوں؟ صحیح احادیث سے وضاحت
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب صف بندی کے احکام و مسائل سے لیا گیا ہے۔

مقتدی کب کھڑے ہوں ؟ :

مقتدی کب کھڑے ہوں؟ اس مسئلہ میں وسعت ہے،
◈امام کے آنے کا یقین ہو، تو پہلے بھی کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔

قد قامت الصلاة کے الفاظ سن کر کھڑا ہو سکتا ہے۔

◈اقامت مکمل ہونے کے بعد بھی کھڑا ہونا درست ہے۔

سیدنا ابو قتادہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني.

’’اقامت کہہ دی جائے، تو مجھے دیکھے بغیر کھڑے نہ ہوں۔‘‘
(صحيح البخاري : 637 ، صحیح مسلم : (604)

سیدنا جابر بن سمرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں:
كان بلال يؤذن إذا دحضت، فلا يقيم حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا خرج أقام الصلاة حين يراه.

’’سورج ڈھلتا تو سیدنا بلال رضی الله عنه ظہر کی اذان کہتے ، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے ، آپ بھی منشور اقامت نہ کہتے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلتے ، تو آپ کو دیکھتے ہی بلال رضی الله عنه اقامت کہہ دیتے ۔‘‘
(صحیح مسلم : 606)

سیدنا بلال رضی الله عنه نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں رہتے۔ جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آتے دکھائی دیتے ، سیدنا بلال رضی الله عنه اقامت کہہ دیتے ۔ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتے ، وہ بھی کھڑے ہو جاتے ، یوں دونوں حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
القدر
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
إن الصلاة كانت تقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فيأخذ الناس مصافهم قبل أن يقوم النبي صلى الله عليه وسلم مقامه . النبي صلى عليه وسلم مقامه۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کی اقامت کہہ دی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہونے سے پہلے ہی لوگ صفوں میں کھڑے ہو جاتے ۔‘‘
(صحيح البخاري : 639 ، صحيح مسلم : 605 ، واللفظ له)

ایسا تو بیان جواز یا عذر کی بنا پر کبھی کبھار ہو جاتا ہوگا۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
يجمع بينه وبين حديث أبي قتادة بأن ذلك ربما وقع لبيان الجواز .

’’اس حدیث اور سیدنا ابو قتادہ رضی الله عنه ان کی بیان کردہ حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ ایسا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار بیان جواز کے لیے کیا۔‘‘

(فتح الباري : 120/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے