سوال:
اعتراض کیا جاتا ہے کہ عہد نبوی میں بئر بضاعہ سے وضو کیا جاتا تھا، جبکہ اس میں پلید اشیاء گرتی تھیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا ہم بضاعہ نامی کنویں سے وضو کر سکتے ہیں، جبکہ اس میں حیض والے کپڑے، کتوں کا گوشت اور گندگی پھینکی جاتی ہے؟ فرمایا: پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز پلید نہیں کر سکتی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 31/3، سنن أبي داود: 66، سنن النسائي: 326، سنن الترمذي: 66، وسندہ حسن)
اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن (وفی بعض النسخ حسن صحیح) کہا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (تہذیب الکمال للمزی: 45/5) اور امام ابن الجارود رحمہ اللہ (47) نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث صحیح ہے، اسے حفاظ نے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘
(خلاصة الأحكام: 66/1)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(بحث و تحقیق کے بعد) جو بات سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ حدیث مطلقاً صحیح ہے، جیسا کہ متقدمین ائمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے، جن میں امام ترمذی، امام احمد، امام یحییٰ بن معین اور امام حاکم رحمہم اللہ شامل ہیں۔ یہ اس فن کے ائمہ ہیں اور (تحقیق حدیث میں) ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔‘‘
(البدر المنير: 387/1)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن “کہا ہے۔
(تنقيح التحقيق: 15/1)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (804 ھ) فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث عام ہے، بعض پانی اس میں شامل نہیں۔ (مثلاً) وہ پانی، جس (کے رنگ، بو یا ذائقہ) میں نجاست گرنے کی وجہ سے تبدیلی آجائے، تو یہ پانی بالاجماع ناپاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ پانی، جس کی مقدار دو مٹکوں سے کم ہو اور اس میں نجاست مل جائے، جیسا کہ امام شافعی، امام احمد اور کئی دیگر ائمہ رحمہ اللہ کا مؤقف ہے۔ امام مالک اور دیگر کچھ ائمہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ حدیث بئر بضاعہ عام ہے اور اس سے مراد وہ کثیر پانی ہے، جس میں نجاست گرنے سے تغیر نہیں آتا، اسے کوئی چیز پلید نہیں کرتی۔ بئر بضاعہ بھی ایسا ہی تھا۔ نیز یہ حدیث، حدیث قلتین کے مخالف نہیں ہے، کیونکہ بئر بضاعہ کا پانی اتنا زیادہ تھا کہ اس میں مذکورہ اشیاء گرنے سے کوئی تغیر نہیں آتا تھا۔‘‘
(البدر المنير: 392/1)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388 ھ) فرماتے ہیں:
’’بئر بضاعہ والی حدیث سن کر کئی لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ یہ (گندگی وغیرہ پانی میں پھینکنا) لوگوں کی عادت تھی کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ایسا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ گمان کسی ذمی یا بت پرست کے بارے میں بھی نہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ کسی مسلمان کے بارے میں کیا جائے، کیونکہ پہلے اور بعد کے مسلمانوں اور کافروں کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ پانی کو نجاستوں سے محفوظ رکھتے تھے، پھر بھلا اس زمانے والوں، جو دین کے سب سے اعلیٰ طبقے اور مسلمانوں کی سب سے افضل جماعت سے تعلق رکھتے تھے، کے متعلق یہ گمان کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ ان علاقوں میں پانی اس سے کہیں اہم اور ضروری چیز تھی کہ وہ پانی سے ایسا سلوک کرتے اور اس کو حقیر جانتے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے، جو پانی والی جگہوں پر پیشاب کرے۔ تو اس کا کیا حال ہوگا، جو پانی کے چشموں کو نجاست اور گندگی پھینکنے کی جگہ بنائے؟ یہ کام صحابہ کرام کی شان کے خلاف ہے۔ دراصل اس گندگی کی وجہ یہ تھی کہ یہ کنواں نشیبی سطح میں واقع تھا اور بارش کی رو گندگی کو رستوں اور ڈھیروں سے بہا کر لے جاتی تھی اور اسے (نشیبی سطح میں موجود) اس کنویں میں ڈال دیتی تھی۔ چونکہ کنویں میں پانی بہت زیادہ ہوتا تھا، اس لیے ان اشیاء کے گرنے سے اس میں تغیر نہیں آتا تھا۔ تو صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا، تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ اس کا پانی پاک ہے یا نجس؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جواب دیا کہ پانی کو کوئی چیز پلید نہیں کرتی۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کثیر پانی تھا کہ جس کی مقدار اتنی ہو، جو اس کنویں کے کثیر پانی کی تھی، کیونکہ سوال اسی (کثیر) پانی کے متعلق ہوا تھا، لہذا جواب بھی اسی کے متعلق دیا۔ یہ حدیث قلتین والی حدیث کے مخالف بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ بئر بضاعہ کا پانی دو قلوں سے زیادہ تھا، دونوں حدیثیں ایک دوسرے کے موافق ہیں، مخالف نہیں۔ خاص کو عام پر مقدم رکھا جاتا ہے، یہ عام کی وضاحت کرتی ہے، نہ کہ اسے منسوخ کرتی ہے۔‘‘
(معالم السنن: 37/1)